انتخابات ہو گئے، آپ ایک بار پھر جیت گئے، 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت نے آپ کو ایک غیر متنازعہ قومی ہیرو بنایا۔ آپ پہلے ہیرو ہیں جنہیں اس قوم نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے اس یقین کے ساتھ ہمارا ہیرو سیاست کے میدان میں بھی فتح مند ہو گا اور آخری اوور کی آخری بال تک شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ نئی اننگز کی شروعات ہونے جا رہی ہیں۔ پچاس اوور کا میچ انتخابات کے ساتھ ہی ختم ہو چکا ہے آپ کے کھلاڑیوںنے سیاست کی پچ پر ٹک کر بیٹنگ کی اور بائولروں نے سوئنگ اور یارکر مار کر مخالف کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑا دیں۔انتخابات کے دوران یہ مراحل طے ہو چکے ہیں ۔ اب آپ کا مقابلہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی اپوزیشن سے نہیں بلکہ اس امید سے ہے جو عوام کے دلوں میں آپ نے جگائی ہے۔ یہ کوئی معمولی امید نہیں ہے۔ ایک ایسی امید ہے جس کی تکمیل کے لئے ہم عوام لیڈر چنتے چلے آئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ون مین ون ووٹ کے ذریعے یہ عمل شروع ہوا۔بھٹو کے بعد اس قسم کی امید کوئی لیڈر پیدا نہیں کر سکا۔2018 ء سے پہلے کئی انتخابات ہوئے لوگوں نے ووٹ بھی ڈالے لیکن ایک موہوم سی امید لئے شاید انکے مقدر کا ستارہ چمک جائے۔ وہ اپنے ملک میں عزت کے ساتھ رہ سکیں، اپنے ہی ہم وطن با اثر لوگوں، قبضہ گروپوں،مافیاز، پولیس والوں، پٹواریوں اور بابوئوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم اور رسوائی سے نجات حاصل کرسکیں۔لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ایک طرف غربت کی لکیر کے نیچے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو دوسری جانب چند لوگوں کے ہاںدولت کے انبار لگتے رہے۔ سڑکوں کے جال بچھتے گئے اور عوام مفلسی کے جال میں پھنستے چلے گئے۔بڑے بڑے محلات اگتے چلے گئے اور عوام دہشت گردی، بھوک اور نفرت کا شکار ہو کر زمین میں دفن ہوتے گئے۔اشرافیہ کے بچے بیرون ملک بڑے بڑے تعلیمی اداروں کو سدھارے یہاں پر عام عوام کے بچوں کو پڑھائی چھوڑ کر پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے معصوم عمر میںہاتھوں کے چھالے ملے۔ اور ان میں سے تو بہت سے اس دنیا میں آتے وقت خود جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر ماں کے سائے سے محروم ہو گئے۔ان میں سے ایسے بھی ہیں جو سات آٹھ سال کی عمر کو تو پہنچے پھر انکی تشدد زدہ لاش کسی کوڑے کے ڈھیر سے ملی اور اس بربریت کا ذمہ دار پکڑا گیا تو دھن ،دھونس اور دھاندلی والا مافیا اس کو بچانے کے لئے سرگرم ہو گیا۔انصاف کے نظام کو اس طرح تلپٹ کیا گیا کہ کسی دروازے پر دستک دو تو غریب کے لئے کھلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔عمران خان آپ کو ان سب باتوں کا علم ہے اور آپ نے ہی مایوس ہوتی ہوئی قوم کے دل میں یہ جوت جگائی کہ بہت ہو گیا اب یہ ظلم کا نظام نہیں چلے گا، تبدیلی آ کر رہے گی۔آپ کی بات پر لوگوں نے اس حد تک یقین کیا کہ وہ 25 جولائی کو جوق در جوق آپ کے حق میں نکل آئے نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔اسی صورتحال سے خوفزدہ ہو کر آپکے سیاسی مخالفین اکٹھے ہو رہے ہیں۔ دیگر وجوہات کے علاوہ سب سے بڑی وجہ احتساب کا عمل ہے جو جاری تو ہے لیکن اسکی رفتار اور ساکھ کے حوالے سے مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اپوزیشن میں بیشتر لوگوں کے معاملات نیب میں ہیں۔ اگر یہ عمل کچھ دنوں میں آزادانہ، حکومتی مداخلت کے بغیر تیزی پکڑتا ہے تو انہیں پتہ ہے بڑے بڑے سیاسی جغادریوں کے لئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔اگر یہ اگلے چند سال اسی طرح سے جاری رہا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونے تک بہت سے لوگ نااہل ہو چکے ہونگے اورپارلیمنٹ کی ہئیت ہی تبدیل ہو چکی ہو گی۔اس صورتحال میں یہ فطری عمل ہے کہ اپوزیشن ہر وہ حربہ استعمال کرے گی جس سے وہ اس سارے عمل کو سبوتاژ کرے۔ اس کے لئے آسان ٹارگٹ حکومت ہی ہو گی۔جس کے لئے ابھی سے کوشش شروع کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سی سیاسی چالیںچلی جائیں گی ۔اس میں کسی مرحلے پر بین الاقوامی قوتیں بھی مدد کے لئے ٹپک سکتی ہیں۔ آپ کے عزم کو کمزور کرنے کی بہت کوششیں ہوں گی۔ لیکن اپوزیشن جتنی بھی بڑی ہو، جتنی بھی طاقتور ہو وہ آپ کا اس وقت تک کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک آپ اس امید کو بر لانے کے لئے کام کریں گے جو عوام کے دلوں میں جگائی ہے۔عوام آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔آپ کی کارکردگی پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے لئے موت کا پیغام ہو گی۔ انکو پتہ ہے کہ اگر آپ اپنے وعدوں کو نبھا گئے تو انکے لئے سیاست کے میدان میں رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ آپ کی ناکامی اس قوم کو مایوسی کی ایک ایسی گہری گھاٹی میں پھینک دے گی جس سے نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا ۔ یہ ان گدھ نما مافیاز کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرے گی جو پہلے تو نوالا ہی چھینتے تھے پھر وہ گوشت نوچنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔بہت بڑا بوجھ ہے جو آپ کو اٹھانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اسکا اندازہ ہے اور اس کے لئے آپ بھر پور تیاری بھی کر رہے ہیں۔دعا ہے آپ مشن مکمل کریں ۔ آپ نے بائیس سالہ سیاسی جدو جہد میں جو کامیابیاں حاصل ہیں جسکے بعدسیاسی مشورہ دینا بے وقوفی ہی شمار ہو گا لیکن ایک آخری مشورہ ضرور ہے ، آخری اس لئے کہ صحافی ہونے کے ناطے آپکے حکومت سنبھالنے کے بعد کارکردگی کا صرف تنقیدی جائزہ ہی لیا جائے گا ۔تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر منظم کرنے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس ملک کے عوام کے خوابوں کی تعبیر کیلئے حکومتی کارکردگی۔ایک منظم سیاسی جماعت جو با شعور ورکروں اور عہدیداروں پر مشتمل ہو گی آپ کے لئے ایک سرمایہ اور قوت ہو گی اور اس بات کی ضامن ہو گی کہ بھلے آپ حکومت میں ہوں نہ ہوں آپ کے مشن کی تکمیل کا عمل نہیں رکے گا۔