پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز سے بچائو کا عالمی دن گزشتہ روز منایا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 17 لاکھ لوگوں میں ایڈز کی تشخیص ہوئی اور 7 لاکھ 70 ہزار لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو کر لقمہ اجل بنے۔ ایڈز کا مرض دنیا بھر میں بے قابو ہو چکا ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ اس وائرس کے شکار زیادہ افراد کا تعلق افریقہ سے ہے۔ صرف 2017ء میں وہاں پر 19 لاکھ افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ دراصل ایچ آئی وی ایڈز جسم میں موجود سیال مادوں کی کسی دوسرے شخص کے جسم میں منتقل ہونے سے ہوتا ہے۔ جیسے خون، عورت کے دودھ سے۔ یہ کہنا کہ اس مرض کا علاج نہیں ہے اور مریض کو اس کے حال پر چھوڑ کر مرنے دینا افسوسناک مسئلہ ہے۔ جن لوگوں میں یہ وائرس پایا جاتا ہے اگر وہ تشخیص ہونے کے بعد اس کا علاج کروائیں تو وہ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس لئے اس وائرس سے متاثرہ افراد سے نفرت کی بجائے ان کی زندگی بچانے کی کوشش کریں۔ ہمارے ہاں جیلوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح گلی محلوں میں کھلی ڈسپنسریوں اور اناڑی ڈاکٹرز کی بار بار ایک ہی سرنج استعمال کرنے سے بھی یہ وائرس آگے منتقل ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ کے ایک ضلع میں خطرناک حد تک اس وائرس سے متاثرہ افراد سامنے آئے تھے۔ اس لئے حکومت پاکستان ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے سدباب کے اقدامات کرے۔