جلیل عالی نے ایک مرصع غزل بھیجی تو مطلع نے ہمیں پکڑ لیاشاید مطلع ابر آلود ہو گیا اسے محکمہ موسمیات کی آنکھ سے نہ دیکھا جائے کہ یہ مطلع چیزے دیگرست: ازل سے جانے یہ کیا سلسلہ چلا ہوا ہے ہرآگہی سے کوئی جہل بھی جڑا ہوا ہے یہی تو مغالطہ ہے کہ ہر کوئی اپنی بات کو حرف آخر سمجھتا ہے اور پھر بات آگے نہیں بڑھ پاتی کوئی اشرف قدسی جیسا بزلہ سنج بھی تو ہوتا ہے جو کہہ دیتا ہے: اعلان جہل کر تجھے آسودگی ملے دانشوری تو خیر سے ہر گھر میں آ گئی آپ پریشان ہرگز نہ ہوں کہ میں کوئی آگہی یا جہالت پر کوئی کالم نہیں باندھنے چلا یہ تو یونہی برسبیل تذکرہ آ گیا کہ یہ قدرت کے کھیل ہیں کہ بڑا سے بڑا ارسطو اور افلاطون بھی اپنی آگہی کے ساتھ ساتھ اپنی جہالت سے بھی بے خبر ہوتا ہے جہالت سے باخبر ہونا اس سے آگے کی بات ہے۔ اصل میں مجھے آج ڈیم کے حوالے سے کالم لکھنا ہے‘ وہی ڈیم جس کا اعلان چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنی زبردست تائید سے قوم کا نعرہ بنا دیا ہے۔ لوگ یقینا اس لیے بھی ڈرے ہوئے تھے کہ پہلے والے حکمران قرض اتارو ملک سنوارو جیسے نعروں سے قوم کو ڈیم فول بناتے رہے ہیں مگر اب کے ڈیم بنانے کی بات ہے۔ جس یقین اور اعتماد سے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کام کا بیڑا اٹھایا وہ کم ہمت لوگوں کے لیے تو اعصاب شکن تھا مگر ہمت مرداں مدد خدا صرف محاورہ نہیں خدا کی قدرت جب اپنی نشانیاں دکھاتی ہے تو ممولے سے باز مروا دیتی ہے پھر ایک کمزور بارہ سنگا شیر کی آنکھیں نکال دیتا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں رائی سے پہاڑ مبالغہ نہیں لگتا۔ ہائے ہائے کیا کہہ دیا میاں محبت نے ’’میتھوںیا رجے پانی منگے‘‘ میں کھوہ نیناں دے گیڑاں‘‘ لانے والے جوئے شیر بھی لے آتے ہیں اور آسمان سے تارے توڑ کر بھی۔ مطالبہ کرنے والا اگر محبوب ہو تو پھر کارفرہاد صبر کھینچتا ہے۔ سردست ایک شعر پڑھ لیں: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو اصل میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلوص نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا۔ ثاقب نثار نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ کر گزرنا چاہتے ہیں۔ اب تو یک نہ شد دو شد عمران خان بھی ساتھ ہے آپ اسے محاورے کا غلط استعمال نہ سمجھیں۔ آپ ڈیم کی دشمنی کرنے والوں کی جگہ جا کر سوچیں تو میری بات آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔ قدرت یاوری کرتی ہے چراغ سے چراغ جلنے لگتے ہیں تو چراغاں ہو جاتا ہے۔ یہ دنیائے ناممکنات نہیں ہے کہ کوئی معجزے برپا کرنے والی ذات اپنی نشانیاں دکھاتی ہے: میری حیرت کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب بنا دیتی ہے میری آنکھوں کو وہ خالی نہیں رہنے دیتی کہیں تارا کہیں مہتاب بنا دیتی ہے میرا دل کہتا ہے کہ ہمارے حالات بدلیں گے کہ ہم حالات بدلنا چاہتے ہیں۔ لیڈر اس قوم کو مل گیا ہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ہی سے پیسے لے کر ڈیم بنانا ہے تو فرق کیا ہوا۔ جو بھی آتا ہے وہ عوام ہی سے قربانی مانگتا ہے۔ جناب بہت فرق ہے اگر اب عوام چندا دے گی تو یقینا یہ سوئس اکائونٹس میں نہیں جائے گا۔ مجھے یقین واسخ ہے کہ عوام کا پیسہ ڈیم پر ہی لگے گا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان دونوں مضبوط ارادوں والے ہیں میں بھی صرف باتیں نہیں کر رہا۔ مجھے بھی شرح صدر ہے اور میں بھی اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا۔ یہ میری اپنی قوم کے ساتھ یکجہتی ہو گی۔ یقین کیجئے ہم نے بہت دھوکے کھائے ہیں دل چاہتا ہے کہ اپنے ملک و قوم کے کام آ جائیں۔ جب لیڈر پرخلوص ہو اور دیانتداری سے کام کر رہا ہو تو پھر قربانی دینے کا بھی لطف آتا ہے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے تو تب یہ بھی ناممکنات ہی میں سے تھا۔ ڈاکٹر محمد بشیر (سائنٹسٹ) نے ہمیں بتایا کہ یورپ اور امریکہ بھٹو کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ پھر بھٹو نے یہ سنگ میل حاصل کر لیا اور پیچھے جائیں تو قیام پاکستان بھی تو ممکن نظر نہیں آتا تھا وہ اسے دیوانے کا خواب کہتے تھے۔ پھر قائد اعظم کی بصیرت اور عزم نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کو ابھارا۔ عمران خان کی بات تو بہت قریب کی ہے اور خود اس نے اپنی زبان سے بتایا کہ کرکٹ کھیلنے والے اس کے پائوں دیکھ کر کہتے کہ یہ کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔ وہ کپتان بنا اور ورلڈ کپ اٹھا لیا کون جانتا تھا کہ وہ کینسر ہسپتال بنائے گا اور نمل یونیورسٹی۔کپتان ہار نہیں مانتا اور اب وہ وزیراعظم پاکستان ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ اب ہمارے سامنے ڈیم ہے جو بھارت کے لیے بھی ایک ہوائی قلعے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر کوئی دل میں یقین ڈال رہا ہے کہ یہ ہو کر رہے گا: اک نہ اک روز نکل آئے گا دیوار سے در ہم وہ خود سر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں ہمیں بنجر پن سے پہلے پہلے زمین کو سیراب کرنا۔ ہمیں موت سے پہلے پہلے خوف سے زندگی کشید کرنی ہے۔ عمران خان نے یقین دلایا ہے کہ وہ عوام کے پیسے کی خود نگرانی کریں گے اوور سیز لوگوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایک ہزار ڈالر فی کس بھجوائیں بعض تو اس سے کہیں زیادہ بھجوا سکتے ہیں اور وہ عمران خان پر ٹرسٹ بھی بہت کرتے ہیںلوگ بس کیا کریں پچھلے ادوار میں تو سیلاب زدگان کے لیے آنے والی کمبل اور کھجوریں تک حکمرانوں نے بیچ دیں۔ بچوں کے دودھ کی رقم تک کھانے والی زبیدہ جلال اب بھی موجود ہے۔ فرق صرف عمران خاں کا ہے یا پھر ثاقب نثار صاحب کا جو تندہی سے اپنے فرائض نبھا رہے ہیں وگرنہ ایک چیف جسٹس کہاں جا کر ہسپتال میں چھاپے مارتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر وہ سیاست میں آئے تو عوام انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گی۔ اصل میں لوگ سچے رہنمائوں کے لیے ترسے ہوئے ہیں۔ میرے پیارے قارئین! ہمیں ذہن میں رکھنا ہے کہ پانی ہی زندگی ہے اور ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہے۔ ہمارے مکار دشمن نے ہمارے دریا صحرائوں میں بدل دیے ہیں اور عاقبت نااندیش حکمران چپ کی بکل مارے بیٹھے رہے اور موجودہ خشک دریائوں کو دیکھ کر تو آنکھوں میں پانی آ جاتا ہے۔ ہم سوچ لیں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا مگر ہمارے پاس مزید سوچنے کا وقت نہیں۔ انشاء اللہ ہم ایک قوم بن کر ڈیم بنائیں گے‘ درخت لگائیں گے اور اس وطن کو جنت نظیر بنا دیں گے۔ ایک ماحول پیدا کریں گے یہ جو لوگ ڈیم بنانے کی اس طرح مخالفت کر رہے ہیں کہ جیسے یہ اس میں ڈوب جائیں گے ہوش کے ناخن لیں وہ عمران خاں کی مخالفت میں اتنے اندھے نہ ہو جائیں بلکہ اس اجتماعی کاز کے لیے دل بڑا کریں اور بڑا ہونے کا ثبوت دیں۔ کم از کم آپ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں رکھتے تو اس کار خیر میں رکاوٹ تو پیدا نہ کریں۔ ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے وگرنہ 2025ء سے خشک سالی کی پیش گوئی ایک حقیقت ہے۔ بہرحال اس وقت کارواں بنتا جا رہا ہے۔ رہبر بھی سچا ہے تو منزل کیوں نہیں ملے گی: بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے