یمن میں جو ظلم و بربریت مسلمان ایک دوسرے پر ڈھا رہے ہیں اسلام کی رُو سے ایسا سلوک تو غیرمسلموں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران سے دوچار ہے۔ آٹھ سالہ خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کے باعث اس ملک میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ شہری اور فوجی جاں بحق ہوچکے ہیں۔سرحدوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ شہری بھوک ‘فاقہ کشی کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ بار بار ہیضہ ایسی مہلک بیماریاں پھوٹتی رہتی ہیں۔ غذا کی بھی قلت ہے‘ پانی کی بھی۔ اِس ملک میں پانی کے حصول کا بڑا ذریعہ صرف زیرِزمین پانی ہے جو بہت نیچے جاچکا ہے۔پونے دو کروڑ لوگوں کونہ پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے نہ سیوریج کی ۔ دو ہزارسے زیادہ اسکول تباہ ہوچکے‘ ملک کے نصف ہسپتال اور کلینک بند ہیں۔ پینتیس لاکھ یمنی اپنے گھروں کو چھوڑ کر ملک کے اندر دربدرپھرتے ہیں۔ پونے تین کروڑ آبادی پر مشتمل یمن جزیرہ نما عرب کے بالکل جنوب میں واقع ہے‘ اسکے شمال میں سعودی عرب ‘ جنوب میں خلیج ِعدن اور مغرب میں بحیرہ ٔاحمر ہے ۔ جنوبی یمن اور شمالی یمن دو الگ ممالک تھے جومئی انیس سو نوّے میں ضم ہو کر ایک ملک بنے۔ شمال میں واقع شہرصنعا اس ملک کا دارالحکومت تھا۔ یمنی عوام کی خواہش تھی کہ ان کا ملک ایک ہوجائے لیکن مفاد پرست قوتوں کے درمیان شروع ہی سے اقتدار کی رسّہ کشی شروع ہوگئی۔ قبائلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنا پرسیاست کی گئی۔ انیس سو ترانوے میں متحدہ یمن کے پہلے الیکشن میں نسلی‘ علاقائی تفریق کھُل کر سامنے آگئی ۔ شمال کے لوگوں نے ایک پارٹی کے حق میں ووٹ دیا ‘ جنوب کے لوگوں نے دوسری پارٹی کو۔ یہ کشمکش دوہزار دو میںصدر علی عبداللہ صالح کی مرکزی حکومت کے خلاف حوثیوں کے احتجاج میں بدل گئی۔ شروع میںشکایت یہ تھی کہ مرکزی حکومت شمالی یمن کی ترقی کو نظر انداز کررہی ہے ‘وہاں کے لوگوں کو نوکریاں نہیں دیتی‘ کرپشن‘ بدانتظامی میں ملوث ہے۔ دو ہزار گیارہ میںحکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے مزید زور پکڑا‘ تیل کی قیمتوںمیں اضافہ نے عوام کو اورمشتعل کردیا۔ پُر تشدد کاروائیاں تیز ہوگئیں۔ دو ہزار پندرہ میںخانہ جنگی باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ بیرونی ممالک نے کھل کریمن میں عسکری مداخلت شروع کردی۔ معاشی امتیاز‘ پسماندگی کی شکایت اور نسلی ‘ علاقائی تعصب کے ُگھل مل جانے سے جو بدامنی جنم لیتی ہے یمن اسکی بڑی مثال ہے۔ یمن کی ستّر فیصد آبادی شافعی مسلک کی پیروکار ہے جبکہ تقریباّ تیس فیصد آبادی زیدیہ مسلک کی۔ سعودی عرب کے جنوب مغرب کے ساتھ یمن کے جو علاقے لگتے ہیں اُن میںزیدیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے حوثی قبائل کی اکثریت ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد سعودی عرب نے شمالی یمن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی تو زیدیہ مسلک کے رہنما بھی متحرک ہوگئے۔ تاہم حوثیوں کی تحریک میں اب شمالی یمن کے شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد اور قبائل بھی شامل ہیں۔ یمن کے بالکل جنوب مشرق میں عمان سے جڑے ہوئے علاقہ میں ماہرا قبائل بھی حوثی تحریک کے ساتھ ہیں۔ یمن کے مختلف علاقوں میں چھ سے زیادہ سیاسی‘مذہبی مسلح گروہ بشمول القاعدہ سے منسلک تنظیمیںسرگرم ہیں۔ ہر تنظیم کومشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں سے امداد ملتی ہے۔ اس وقت شمال مغربی یمن پر حوثی تحریک قابض ہے جسکی اعانت ایران کرتا ہے۔ اسکا مرکز صنعا ہے‘ عبدالمالک بدرالدین الحوثی اس تحریک کے سربراہ ہیں۔ جنوبی یمن میں حوثیوں کی مخالف حکومت عبدالربوہ منصور المہدی الہادی کی سربراہی میں قائم ہے۔اس کا دارلحکومت عدن ہے۔ اس حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی عملی مدد حاصل ہے۔ ایک گیارہ ملکی عرب اتحاد بھی الہادی کی پشت پر ہے۔یُوں یمن میں عرب ملکوں اور ایران کی پراکسی جنگ جاری ہے۔ حوثی سعودی عرب کے اندر بیلسٹک میزائلوں اور ڈرون سے حملے کرتے رہتے ہیں جبکہ سعودی عرب شمالی یمن پرلڑاکا طیاروںسے فضائی حملے کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے جنوبی یمن میں خلیج عدن کے ساحل کے ساتھ ساتھ درجنوں فوجی اڈّے‘ تربیتی کیمپ اور چھاؤنیاںقائم کی ہوئی ہیں۔ یمن کی تزویراتی(اسٹریٹجک) اہمیت یہ ہے کہ اس کے جنوب میں اٹھائیس کلومیٹرچوڑا آبنائے باب المندب (تنگ سمندری راستہ ) ہے جو بحیرۂ احمراور خلیجِ عدن کے سمندروںکو ملاتا ہے ۔ اس تنگ سمندری راستے سے سعودی عرب کا سارا تیل گزرتا ہے۔ اگر یہ آبنائے بند ہوجائے تو پوری دنیا میں معاشی بحران برپا ہوجائے۔دونوں سمندروں میںواقع تقریباًدو سوجزائر بھی یمن کا حصّہ ہیں جس سے بحری تجارت کو رواں دواں رکھنے میں اس ملک کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔سعودی عرب اپنی سلامتی اور معاشی مفادات کے لیے ضروری سمجھتا ہے کہ ہمسایہ ملک یمن میں اسکی تابعدارحکومت قائم رہے۔ سعودی عرب یہ بھی چاہتا ہے کہ یمن کے زمینی راستے سے تیل کی پائپ لائن بچھا کر بحیرۂ عرب تک لے جائے تاکہ اگرایران کبھی آبنائے ہرمز کو بند کردے تو وہ متبادل راستے سے دُنیا کو اپنے تیل کی رسد جار ی رکھ سکے۔ متحدہ عرب امارات کی خواہش ہے کہ یمن دوبارہ شمالی اور جنوبی حصّوں میں تقسیم ہوجائے ‘ جنوبی یمن کو وہ اپنی طفیلی ریاست بنالے۔ایران کا منصوبہ ہے کہ اُسے بحیرۂ احمر کے ساتھ جڑے ہوئے شمال مغربی یمن میں حوثیوں کی مدد سے قدم جمانے کا موقع مل جائے تاکہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ پھیلاسکے۔مسلمان ممالک اپنے دینی بھائیوںمیں صلح صفائی کرواکے امن قائم کرنے کی بجائے یمن کی خانہ جنگی کا فائدہ اُٹھا رہے ہیںاور علاقائی سیاست میں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں ۔