مت شکایت کرو زمانے کی یہ علامت ہے ہار جانے کی انسان کے لئے امید سب سے بڑی توانائی ہے۔ اسی لئے تو مایوسی کو کفر کہا گیاہے۔ بات مگر میں کچھ اور کرنے جا رہا ہوں جس کی فلیش بیک پر مجھے ڈاکٹر ہارون رشید کا ایک شاندار پروگرام یاد آیا جو انہوں نے واصف ناگی کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ موضوع تھا ہائپر ٹینشن۔ غالباً انگزئٹی بھی اسی کی بہن ہے۔ ظاہر ہے ایسے پروگرام میں سب کے سب ڈاکٹر ہی تھے جن میں میرا دوست ڈاکٹر محمد امجد بھی تھا۔ میں اکیلا نان ڈاکٹر تھا مگر اگلے روز جب سب کی تصاویر چھپیں تو میرے نام کے ساتھ بھی ڈاکٹر ہی لکھا ہوا تھا۔ تقریروں کے بعد مجھ سے کلام سنا گیا تھا اور کسی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سارا پروگرام ہائپر ٹینشن ختم کے نسخوں پر مشتمل تھا مگر شاعری تو اچھی خاصی ہائپر کرنے والی تھی: مجھ پہ طاری ہے خیال لب جاناں ایسے ایک چڑیا بھی جو بولے تو برا لگتا ہے اب آتے ہیں اس طرف کہ جس طرف میں آپ کو لانا چاہتا ہوں۔ ہوا یوں کہ میں ڈاکٹر ناصر قریشی کے پاس بیٹھا تھا۔ سبز چائے نوش کی جا رہی تھی ہمارے ایک دوست خواجہ شاہد اپنے بیٹے کو ساتھ لائے تھے کہ اس کے کچھ مسائل ہیں۔ ساتھ ہی وہ اس کی ساری ہسٹری ‘ ٹیسٹ اور ایکسرے وغیرہ لائے تھے ڈاکٹر ناصر قریشی نے وہ ترام کاغذات اور نسخہ جات دیکھے اور لڑکے کا سارا معائنہ وغیرہ کیا۔ مگر جو گفتگو انہوں نے کی تو میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے قارئین کو اس میں شریک کرلوں کہ شاید کئی لوگوں کا فائدہ ہو جائے اور کچھ کو انفاقہ بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کو میڈیکل کے علاوہ دوسرے علوم کا بھی ماہر ہونا چاہیے کچھ کچھ نفسیات کا بھی معاملہ ہے مثلاً اگر کہیں نہر کنارے آپ کو سانپ کاٹ جائے اور نظر آپ کو مینڈک آ جائے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں ہو گا اور اگر آپ کو مینڈک نے کاٹا اور نظر آپ کو سانپ آ گیا تو پھر آپ کے بچنے کی امید ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس لڑکے سے کہا وہ 90فیصد بالکل ٹھیک ہے۔ صرف 10فیصد انہیں کوئی شک ہے جس کے لئے وہ اسے ایک ایکسرے کروانے کا کہیں گے اور ساتھ کچھ میڈیسن دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو دردیں ہیں یا وومٹنگ یعنی ابکائی وغیرہ کی کیفیت ہے۔ اس کے پیچھے انگزائٹی ہے۔ اب بات شروع ہوئی کہ انگزائٹی اصل میں ہے کیا۔ وہی ٹینشن اور ہائپر ٹینشن جیسی صورت حال۔ ہم تو گوش برآوز رہے یا یوں کہیں کہ ہمہ تن گوش رہے۔ پتہ چلا کہ یہ سٹریس آپ کے بس میں نہیں ہوتا۔ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ انگزائٹی کسی پریشانی سے ہوتی ہے۔ اس ٹینشن کا باعث کوئی خوشی بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی ایسی خوشی جو آپ سے برداشت نہ ہو رہی ہو۔ ویسے ایک زمانے میں ہم نے ایکس ٹیسی کا پڑھا تھا۔ پروین شاکر کی ایک نظم بھی ہے جس میں عروسی خوشی کی صورت حال ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر اچانک آپ کا امریکہ کے لئے ویزا لگ جائے اور آپ خوشی سے نڈھال ہو جائیں ایک انگزائٹی ہم نے بھی محسوس کی تھی: مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا ہو گا ہو چکی اپنی پذیرائی بھی اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اس باعث بھی یہ انگزائٹی ہوتی ہے کہ آپ اس علم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ کے احاطہ قدرت میں نہیں۔ مثلاً دس بارہ دنوں سے آپ کو بیماری سے آرام نہیں آ رہا اور آپ پریشر میں آ گئے کہ آپ ٹھیک کیوں نہیں ہو رہے۔ آپ خود ہی اخذ کر لیتے ہیں کہ آپ کو شاید کوئی سنجیدہ یا پیچیدہ بیماری ہے۔ ایسی صورت حال میں آپ کے اعصاب پر تنائو ضرور ہو گا۔ آپ اٹھتے بیٹھتے اسی سوچ کو خود پر طاری کر لیں گے۔ آپ کو یہ معاملہ ڈاکٹر پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بعض دفعہ دوائی پراپر نہیں مل رہی ہوتی۔ یا بعض اوقات جراثیم ہی ڈھیٹ نکلتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر پر اعتماد کریں ایک اور بات یہ کہ کچھ کاموں پر آپ کا اختیار نہیں ہوتا۔ ویسے تو ہر اختیار اللہ کے پاس ہے اگر آپ یہ سوچ لیں کہ ایک بات پر میرا اختیار ہی نہیں تو اس میں کڑھنے یا جلنے کا کیا فائدہ۔ اگر آپ کا قد چھوٹا ہے یا زیادہ لمبا ہے تو اس پر آپ کو قانع ہونا پڑے گا۔ سب کے پاس حسن یوسف تو نہیں ہو سکتا۔ خیر بات یہ ہے کہ جو چیز آپ کے اختیار اور بس میں نہیں تو انسان کو ٹینشن فری ہو جانا چاہیے مگر یہاں ہوتا الٹ ہے۔ صابر شاکر ہونا انگزائٹی کو قریب نہیں بھٹکنے دیتا: دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں ایک بات تو ڈاکٹر ناصر قریشی نے بہت ہی عمدہ کہی کہ ٹینشن یا انگزائٹی کوئی بیماری نہیں ہیں۔ یہ چیز تو متاثرہ شخص کو انگیخت لگاتی ہے۔ یہ قدرت کی عنایت ہے کہ اس کیفیت میں انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے لا کر گھٹن اور ٹھہری ہوئی صورت حال سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ نئی راہیں تلاش کرتا‘ نئے زاویے سے سوچتا ہے کہ چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر شے بے مقصد نہیں ہے۔ مزید انہوں نے یہ کہا کہ ایسی صورت حال میں مصروفیت بہت ضروری ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ انگریزی میں تو خالی ذہن کو شیطان کی ورکشاپ کہا گیا ہے اس مقصد کے لئے کھیل سب سے زیادہ فائدہ مند ہے مگر کرکٹ نہیں کہ اس میں ٹینشن بڑھنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ فٹ بال ‘ ہاکی یا کوئی اور ایسا کھیل جس میں اور کھلاڑی بھی ہو۔ دوسری بات یہ کہ انگزائٹی یا ٹینشن حساس اور سمجھدار لوگوں کو ہوتی ہے۔ احمق کا تو یہ مسئلہ ہی نہیں بلکہ بے وقوف آدمی تو دوسروں کے لئے ٹینشن ہوتا ہے۔یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ انگزائٹی وغیرہ سے بچنے کے لئے صرف سیر ویر کافی نہیں۔ سیریا واک تو صرف بوڑھوں کے لئے ہے نوجوانوں اور جوانوں کو ایکسر سائز کرنا چاہیے ٹینشن تو سب کو ہوتی ہے ٹینشن فری کوئی نہیں ہو سکتا۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جب کام ہمارے مزاج یا توقع سے مختلف ہوتا ہے تو احساس کچھ متاثر تو ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اللہ کو پہچانا۔ تبھی تو کسی استاد نے کہا تھا: احسان ناخدا کا اٹھائے مری بلا کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں ویسے آخری بات یہی ہے کہ جن لوگوں کی لو اللہ سے لگی ہوئی ہے وہ بڑے اطمینان میں ہوتے ہیں‘ سکون میں ہوتے ہیں اور خوش باش۔ واقعتاً وہ اپنے کام اللہ پر ڈال دیتے ہیں اور پھر کام ہو بھی جاتے ہیں: سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے