قوموں کی زندگیوں میں چند ایسے مواقع آتے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدلنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔24اکتوبر1947 میںآزادجموںوکشمیر کا قیام محض اتفاق نہیں تھا بلکہ اس کے لئے ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے تاریخ ساز جدوجہد کی تھی ۔ 19 جولائی 1947کو سرینگر کے مقام پر ریاستی مسلمانوں نے قرارداد پاکستان منظور کر کے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کر نے کا فیصلہ کیا تھا ۔جب وہ یہ فیصلہ کر چکے تو انہیں اس بات کا احساس بھی ہو گیا تھا کہ تقسیم برصغیر کے اصولوں کے مطابق ریاستی مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جا رہاہے اور ایک سازش کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا جا رہا ہے ۔چنانچہ انہوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف اعلان جہاد آزادی کرکے قرارداد الحاق پاکستان کو عملی شکل دینے کے لیے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا اور پندرہ ماہ تک مسلسل بھارتی افواج کا بھرپور مقابلہ کر کے کشمیر کے ایک بڑے حصے کو ڈوگرہ فوج اور بھارتی تسلط سے آزاد کر اکے آزادجموں و کشمیر میں آج ہی کے دن ایک انقلابی حکومت قائم کر دی ۔ 1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ڈوگرہ حکمران نے برصغیر کے تقسیم کے طے شدہ فارمولے سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے اس ناپاک ارادے کو کشمیری مسلمانوں نے مسلح جدو جہد کر کے ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرایا24اکتوبر1947 کو آزاد جموں و کشمیر کی تو اپنی حکومت بن گئی، لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی ابھی بھی جاری ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کے کردار کو بھی قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 24 اکتوبر کو 1947کا دن یقیناایک تاریخ ساز دن ہے اسی دن جنیل ہل کے مقام پریہ باغیانہ اعلان گونجا کہ ریاست جموں کشمیر میں جاری جہاد کو آئینی اور انتظامی قوت عطا کرنے اور اس جہاد کے اعلی مقاصد (1)جموں کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی اور پاکستان سے الحاق کی تحریک کو عوامی قوت پہنچانے اور دنیا بھر میں پروجیکٹ کرنے اور آزاد شدہ علاقوں میں نظام حکومت قائم کرنے کیلئے راولا کوٹ پونچھ کے خوبصورت نوجوان بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم کی گی ہے۔ بیسویں صدی میں اس طرح کی آزاد حکومت کے قیام کا یہ پہلا اعلان تھا۔ اس سے پہلے فرانس کی آزادی کیلئے جنرل چارلس ڈیگال نے لندن میں بیٹھ کر آزاد فرانس کی حکومت کا اعلان کیا تھا لیکن جنرل چارلس ڈیگال کے پائوں کے نیچے فرانس کی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں تھا جبکہ آزاد حکومت کے اعلان پر نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں اور کشمیریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ دنیا بھر میں عالم اسلام نے مسرت کا اظہار کیا تھا لیکن ہندوستان کی کانگریس قیادت نے پاکستان کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ آج تک قبول نہیں کیا ہے۔ کانگریس کی قیادت خاص کر کشمیری نژاد جواہر لال نہرو نے اس کیخلاف سازشیں شروع کر دی تھیں۔ سب سے بڑی سازش یہ تھی کہ ریاست جموں کشمیر کے پاکستان سے فطری الحاق کو روک کر دفاعی اور معاشی طور پر پاکستان کو کمزور رکھا جائے۔ وائسرائے ہند لارڈ مانٹ بیٹن جنہیں کانگریس نے ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بنایا تھا نے ہندوستان کی 650چھوٹی بڑی ریاستوں میں سے ریاست جموں کشمیر کا 26 جون 1947کو دورہ کیا اور ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کو حوصلہ کا پیغام دے کر آئے تھے۔کانفرنس کے صدر دھاریہ کریلانی سری نگر گئے اور غدارملت شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کو رام کرتے رہے۔ سازشوں کا نقطہ عروج ہندوستانیوں کے باپو مہاتما گاندھی کا کوہالہ کے راستے یکم اگست 1947کو سری نگر کا سفر تھا۔ گاندھی تین دن سری نگر میں رہے۔ غدارملت شیخ عبداللہ کے گھر بھی گئے۔ خود چل کر گاندھی مہاراجہ ہری سنگھ کے محل میں گئے۔ ہری سنگھ نے گاندھی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر تعظیم بجا لائی۔ اس ملاقات میں جموں کشمیر کو ہتھیانے کی سازش مکمل ہو گئی تھی۔ شیخ عبداللہ جو مہاراجہ ہری سنگھ کیخلاف تقریر کرنے کی پاداش میں جیل میں تھے۔ اپنے ایک ہندو دوست کے نام خط کے ذریعہ ہری سنگھ کو پیغام پہنچایا کہ وہ ہندوستان کیساتھ الحاق کرے۔ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ نے اپنی کتاب میں اس خط کی تصدیق کی ہے۔ ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے 28E کانفرنس کی جنرل کونسل نے سری نگر میں سردار محمد ابراہیم کے گھر میں 19جولائی 1947ء کو اپنے اجلاس میں قرارداد منظور کی تھی جس میں مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا گیا تھا تقسیم ہند کے اصولوں کیمطابق اور ریاست جموں کشمیر میں مسلمانوں کی 80فیصد آبادی اور ریاست کے پاکستان سے مذہبی، اقتصادی اور مواصلاتی رابطوں کی رو میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کرے ورنہ مسلمان علم جہاد بلند کر دینگے۔ یہ علم جہاد بلند ہوا۔ اسکے نتیجہ میں 5000مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا۔ اس جہاد کو قوت پہنچانے، عوامی تائید فراہم کرنے اور دنیا بھر میں پروجیکشن کیلئے 24 اکتوبر1947 ء کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ہندوستان اس جہاد کیخلاف سلامتی کونسل میں گیا تھا۔ وہاں 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949کی قراردادوں میں کشمیری عوام کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ رائے شماری کے ذریعہ فیصلہ کرینگے کہ وہ ہندوستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کیساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان قراردادوں کو ہندوستان نے قبول کیا۔ جواہر لال نہرو نے اپنی پارلیمنٹ میں اور سری نگر کے لال چوک میں خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان قراردادوں پر عمل کرینگے۔ چاہے انکے نتائج سے ہمیں دکھ ہی ہو لیکن ہندوستان نے آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا رکھا ہے۔یہ دن ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ پنجہ باظل میں جھکڑے کشمیر کے حصے کی آزادی کے لئے تمام توانیاں صرف کر کے کشمیر کی آزادی کے لئے دی جانے والی قربانیوں کی لاج رکھیں اور صبح آزادی کی منزل کے رواں دواں رہیں۔