اقوام ِمتحدہ کا ادارہ جب وجود میں آ رہا تھا تو علامہ اقبال نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ کفن چور ہیں اور ع بہر ِتقسیم ِقبور انجمنی ساختہ اند علامہ کی یہ پیش گوئی، کْرسی نشین ہوئی۔ اس ادارے کا صدر دفتر، نیویارک میں ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہی، دیوار پر سجا ہوا ایک قالین نظر پڑتا ہے، جس پر شیخ سعدی کے یہ شعر مرقوم ہیں۔ بنی آدم، اعضای ِیکدیگر اند کہ در آفرینش، ز یک گوہر اند چو عُضوی، بدرد آوَرَد رْوزگار دگر عْضو ہا را نماند قرار تو کز محنت ِدیگران بی غمی نشاید کہ نامت نہند آدمی یعنی، اولاد ِآدم کی مثال، ایک جسم کی سی ہے۔ جسم کا کوئی حصہ، اگر تکلیف میں آئے، تو سار جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ سو دوسروں کی تکلیف سے، اگر تم بے پروا ہو، تو آدمی کہانے کے مستحق نہیں! شیخ سعدی کے یہ شعر، اس ادارے کے بے حس ممبروں کے لیے، تازیانے ہیں، طمانچے ہیں! انسانیت کا یہ، وہ پیغام ہے، جسے اقوام ِمتحدہ کا موٹو ہونا تھا مگر ہوا کیا؟ جو جتنا طاقتور ہے، اتنا ہی اسے وزنی تسلیم کیا گیا ہے! حق کس طرف ہے؟ اس سے غرض نہیں۔ خانہ پْری کے لیے، یہ ادارہ کبھی کبھی مظلوموں کی بھی سْن لیتا ہے۔ اس کے لیے، البتہ ضروری ہے کہ "ہاتھیوں" میں سے کوئی، رکاوٹ نہ بنے! انگریزی کا محاورہ ہے کہ مسئلے کا آپ، اگر حل نہیں ہیں تو ضرور اس کی وجوہ میں سے ہیں! اب بتائیے کہ یہ ادارہ کس مرض کی دوا ہوا؟ فلسطینیوں کے بعد کشمیریوں پر بھی، مظالم کا وہ پہاڑ توڑا جا رہا ہے کہ ع آسمان را حق بود، گر خون بگرید بر زمین بھارت پر دبائو ڈال کر، یہ ادارہ انصاف کے کچھ تقاضے تو پورے کر ہی سکتا تھا۔ مگر یہاں تو یہ خانہ ہی خالی ہے! بھارت اپنے فوجیوں کی ہلاکت پر بڑا شور مچا رہا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عین انتخابات سے پہلے، اس حملے کا فائدہ کسے پہنچتا ہے؟ جس قوم کی اپنی تاریخ میں مساوات نام کی کوئی شے نہیں رہی، وہ سیکولرازم کا نعرہ لگاتی ہے اور دوسری قوموں سے برابری کے سلوک کی دعوے دار ہے! ہیرو ان کا وہ مکار شیوا جی ہے، جس نے شجاعت کے دھنی پٹھان جرنیل افضل خان کو صلح کی درخواست بھیجی تھی۔ ساڑھے چھے فٹ کا دلاور، جب اس بالشتیے کی درخواست پر ملنے آیا تو گلے لگنے کے بہانے، مکار شیواجی نے، افضل خان کی کمر میں، خنجر گھونپ دیا۔ اس واقعے کو ضمیر جعفری یوں بیان کرتے ہیں۔ سچ کہتا تھا افضل خان تری پورہ تا راجستھان مَر گیا ہندو میں انسان مسلمان اب دنیا کی سب سے مجبور اور مقہور قوم ہیں۔ پچھلے کالم میں امریکن کانگرس کی ممبر، الہان عْمر کی ابتلا کا ذکر ہوا تھا کہ اْن کے ایک ٹویٹ پر، ساری کانگرس ان کے خلاف، کیسے یک زبان ہو گئی۔ الہان نے کہا تھا کہ امریکن سیاستدان اسرائیل کی حمایت، صرف پیسے کی خاطر کرتے ہیں۔ اس پر انہیں، "یہودیوں سے نفرت کرنے والی" کہا گیا۔ "یہود مخالفت" یا "یہودیوں سے نفرت" ایک ایسا ہتھیار ہے، جو کْند نہیں ہوتا! اسرائیلی لابی اتنی طاقتور ہے کہ کانگرس اور میڈیا ہی نہیں، وال اسٹریٹ اور بینکنگ سیکٹر سے لے کر ہالی ووڈ تک، اس کے ہاتھ میں ہے۔ اگلے کسی کالم میں اس کا تفصیلی ذکر ہو گا، مگر یہاں صرف یہ سْن لیجیے کہ کیا ایماندارانہ سیاست اور کیسی آزادی ِصحافت، اسرائیل کی کھْلے بندوں مخالفت کرنے والے، سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے کیریئر ہی ختم ہو کر رہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کی تفریق، اسرائیل پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ عْمر کا ایک بڑا حصہ، امریکہ میں گزارنے کے بعد، یہ خاکسار یقین سے کہہ سکتا ہے کہ فراڈ کرنے میں، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے، دائیں بازو والوں سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں! دائیں بازو والوں کا المیہ یہ ہے کہ جو مطالبات، بائیں بازو والے آج کرتے ہیں، پچیس تیس برس میں، انہیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دائیں بازو والے، کھِسکتے کھِسکتے، جہاں آج پہنچ چکے ہیں، 50 ‘60 سال پہلے کے آزاد خیالوں سے بھی منزلوں آگے کا مقام ہے۔ خود لبرلز کی حالت، شْتر ِبے مْہار کی سی ہے! آزاد خیالی کے ہر نئے نظریئے کو یہ قبول کرتے جاتے ہیں۔ اپنے تئیں یہ انسانیت کی خدمت کرنے والا کہتے ہیں۔ مذہب سے انہیں کوئی لگائو نہیں مگر چند ’’بنیادی‘‘ معاملات میں، ان کی پوزیشن بالکل وہی ہے، جو مذہبی انتہا پسند فرقے ایوینجلسٹ کی ہے۔ امریکن قوم، زیادہ تر سادہ لوح اور ایمان دار عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ ساری دنیا میں، اس قوم کو بدنام کرانے کے ذمہ دار، یہی گندے انڈے ہیں جو چاروں کھْونٹ دبائے بیٹھے ہیں۔ یعنی سیاست، میڈیا، مذہب اور انٹرٹینمنٹ! عام امریکنوں پر انکے ’’جوہر‘‘کھل کر بھی نہیں کھلتے۔ ہوں فریب ِستم ِیار کا قائل اکبر مرتے مرتے نہ کھْلا یہ کہ جفا ہوتی ہے! ٭٭٭٭٭ ظفر علی خاں پر فضل ِالٰہی! پچھلے کالم میں، مولانا کا ایک شعر لکھنے میں، حافظہ چْوک گیا۔ بی بی سی ریڈیو کے مایہ ناز میزبان اور استاد ِمکرم شاہد ملک صاحب نے برمحل گرفت کی اور اصل واقعہ یاد دلایا۔ شعر یہ ہے۔ میرے اس لیڈر پہ ہے "فضل ِالٰہی" اس قدر نقطہ نقطہ، شوشہ شوشہ، نذر ِسینسر ہو گیا سینسر کی قینچی، جن صاحب کے ہاتھ میں تھی، فضل ِالٰہی انہیں کا نام تھا! مولانا کتنے حاضر دماغ اور بالبداہت شعر کہنے والے تھے، اس کا ایک واقعہ اَور سنیے۔ مسلم لیگیوں کا لباس سبز تھا۔ ان کے مجمع کے پیش ِنظر، فرمائش کی گئی کہ شعر سنائیے۔ مولانا نے، ذرا سا تصرف کر کے، کسی استاد کا یہ شعر پڑھا۔ "سبز پوشی" بہ سر ِراہ نظر می آید نہ بزوری، نہ بزاری، نہ بزر می آید مطلب یہ کہ ان سبز پوشوں کو، کسی عْنوان، پرچایا نہیں جا سکتا! اس پر توجہ دلائی گئی کہ اْدھر دیکھیے۔ گاندھوی سْرخ پوش چلے آ رہے ہیں۔ اس پر مولانا گویا ہوئے۔ سْرخ پوشی بہ سر ِراہ نظر می آید در دلت گر ہوسش ہست، بزر می آید یعنی، ان سْرخ پوشوں کو، چاہو تو روپوں کے عوض خرید لو۔ غرض، یہ نادر ِرْوزگار صحافی، فی البدیہہ شعر کہنے کا بھی بادشاہ تھا۔ سید سلیمان ندوی نے انہیں، اردو کے تین کامل الفن اساتذہ میں شمار کیا ہے۔ اپنے بارے میں، مولانا بجا فرما گئے ہیں کہ ع نہ ہر کہ کِلک بگیرد، ظفر علی بشود