فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے مطابق ڈیڑھ کروڑ افراد شاہانہ زندگی گزارنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ملک کی بائیس کروڑآبای میں سے صرف پندرہ لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق تنخواہ دار طبقے سے ہے۔ کسی بھی ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا ضروری ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس چوری کی اس قدر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ملکی نظام چلانے کے لیے ہمیں غیروں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امراء سے ٹیکس وصول کر کے غربا پر خرچ کیا جاتا ہے۔ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور سبسڈیز دے کر عوام کامعیار زندگی بہتر کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام ایمانداری سے انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جس بنا پر ان ملکوں کی حکومتوں کو کشکول اٹھا کربھیک نہیں مانگنی پڑتی۔ امریکہ، چین، جاپان، فرانس اور جرمنی سمیت دیار غیر میں رہائش پذیر پاکستانی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایف بی آر کے تغافل اور قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ بائیس کروڑ افراد میں سے صرف پندرہ لاکھ افراد کا ٹیکس ادا کرنا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے افراد شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ یہ افراد ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ حکومت ٹیکس وصولی کے حوالے سے قوانین سخت کرے اور کم از کم ایک کروڑ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لائے تو ہم بیرونی قرضے بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو غیروں کے سامنے نہ جھکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اب لازم ہے کہ عمران خان ایف بی آر کے بنیادی قوانین میں ترمیم کر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس کے دائرے میں لائیں۔ کاروباری افراد کو بھی ٹیکس دینے کی ترغیب دیں تو ملکی وسائل سے قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ ایف بی آر کی تنظیم نو کی جائے۔ سفارش، کام چوری اور غیر متعلقہ افراد کو اس محکمے سے نکالا جائے۔ سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی کم جائے تاکہ غریب آدمی پر ٹیکس کا بوجھ نہ پڑے۔