اتوار اور پیر کی درمیانی شب احباب نے سینئر صحافی‘کالم نویس اور سیرت نگار محمد رفیق ڈوگر کو لحد میں اتارا‘نہر کنارے راجپوت ٹائون کے قبرستان میںمدفون محمد رفیق ڈوگر مرحوم الگ مزاج کے انسان اور اپنی طرز کے صحافی تھے ۔1991ء میں انہیں کینسر کا موذی مرض لاحق ہوا‘ڈاکٹروں نے فوری آپریشن کرانے اور ایک ٹانگ کٹوانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے انکار کر دیا‘ اپنے خالق و مالک حقیقی کے روبرو گڑ گڑا کر دعا کی کہ ’’یا الٰہی کچھ مہلت عطا کر‘ میں سہل زبان میںتیرے حبیبﷺ کی سیرت لکھنا چاہتا ہوں‘‘۔اپنی منفرد و یادگار تصنیف ’’الامین‘‘ کے دیباچے میں ڈوگر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’فروری 1991ء میں شیخ زید ہسپتال لاہور میں میرے بائیں گھٹنے کا آپریشن ہوا۔ایک دوپہر ڈاکٹر جی اے شاہ آئے‘ان کے ہاتھ میں ایک رپورٹ تھی۔’’آپ کو کینسر ہے‘‘۔میں خاموش رہا‘وہ بتا کر چلے گئے۔اس وقت میں کمرے میں اکیلا تھا مگر نہیں ‘اللہ بھی اپنے بندے کے ساتھ تھا۔شام کو ڈاکٹر کے نائب آئے۔ ’’کینسر کی یہ قسم بڑی تیزی سے جسم میں پھیلتی ہے گھٹنے کے اوپر سے ٹانگ کاٹ دی جائے تو آپ کو دس سال تک مل سکتے ہیں ورنہ دو اڑھائی سال بھی مشکل ہیں‘‘خاموش رہنے اور سننے کے سوا چارہ ہی کیا تھا؟ ’’ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اپنے گھر والوں سے مشورہ کر کے جلد فیصلہ کریں‘‘ ’’ڈاکٹر صاحب !جس خدا نے مرض پیدا کئے ہیں وہ شفا دینے پر بھی قادر ہے‘‘ ’’کیا مطلب‘‘ ؟ ’’میرا ایمان ہے کہ اللہ کے پاس شفا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ شفا دے گا‘‘ ہسپتال کی تنہائی میں اپنے اعمال کا جائزہ لے کر میں نے اپنے خدا سے دعا کی تھی۔ ’’میرے اللہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں نہ اس دنیا میں نہ اس کے بعد والی دنیا کے لئے ‘تیرے پاس کس چیز کی کمی ہے‘ کچھ مہلت عطا فرما‘‘ میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔نہ مرض کے بارے میں نہ اللہ سے درخواست کے بارے میں۔اپنے گھر والوں کو بھی نہیں۔ڈاکٹروں کے سوا ایک دو دوستوں کو علم تھا۔بندہ اپنے دکھوں سے دوسرے کو کیوں پریشان کرے؟۔وقت گزرتا رہا۔اللہ تعالیٰ سے کیا وعدہ کیسے پورا کروں؟ میں سوچتا رہا۔میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔چودہ سو سال سے سیرت پاکؐ پر لکھا جا رہا ہے۔وہ لکھتے رہے جو علم و عمل والے تھے۔بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔میں تو بے علم ہوں۔کیا لکھوں؟کیسے لکھوں؟دعا کرتا رہا۔سیرت کی کتابیں پڑھتا رہا۔شاید کوئی راستہ مل جائے۔اللہ تعالیٰ نے راستہ دکھایا۔ہمت دی ‘رہنمائی کی اور رسول اکرم ﷺ کی مکی زندگی ایک جلد میں مکمل ہو گئی۔ بندہ اپنے خالق و مالک کے کس کس کرم کا شکر ادا کرے؟جس نے ہمت بھی دی اور شفا بھی دی۔کسی علاج کے بغیر ایک بھی گولی کھائے بن۔بلاشبہ مرض دینے والا شفا دینے پر بھی قادر ہے۔وہ اپنے ناچیز اور بے وسیلہ بندوں کی دعائیں سنتا اور قبول فرماتا ہے۔دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے۔دعا کریں اللہ تعالیٰ میری خامیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دے ۔دعا کریں اللہ تعالیٰ باقی حصہ مکمل کرنے کی توفیق اور ہمت دے۔سوچتا رہا اپنی دعا اور شفاء کے بارے میں لکھوں یا نہ لکھوں؟تشہیر کرم کہیں تشہیر ذات نہ سمجھ لی جائے۔خیال آیا‘یہ تو بندے کے خالق و مالک کے کرم اور قدرت کی بات ہے‘بندے پر خالق کے اکرام و انعام کا ذکر تو اس کا شکر ہے۔خالق اپنے بندے سے اس کرم کے ذکر پر ناراض نہیں ہو گا۔وہ نیتوں کا جاننے والا ہے۔دعا کریں وہ اپنے بندے پر اپنے کرم کے دروازے کھلے رکھے۔‘‘ محمد رفیق ڈوگر صاحب نے ’’الامینؐ‘‘ کی پہلی جلد کا دیباچہ 99ء میں لکھا‘ماہر ڈاکٹروں کی تشخیص کے ٹھیک آٹھ سال بعد‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم کے دروازے کھلے رکھے۔ الامین کی چار جلدیں مکمل کیں جو دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں‘بچوں کے لئے ’’سیرت الامینؐ‘‘ تین جلدوں میں ہے‘قرآن مجید کی تفسیر اور ترجمہ نور القرآن چھ جلدوں میں لکھ کر بھی فارغ نہ بیٹھے اور تراسی سال تک کلام الٰہی و سیرت نبویؐ سے کچھ نہ کچھ کشید کرتے رہے۔1991ء میں جید ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ کینسر کا یہ مریض آپریشن کے بغیر دو اڑھائی سال سے زیادہ جی نہیں سکتا مگر رفیق ڈوگر نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسے اور ایمان و ایقان کی قوت سے 2022ء تک پورے اکتیس سال تک بیماری کودوبارہ قریب پھٹکنے نہ دیا اور یوم وفات تک ان کی تمام طبی رپورٹیں کلیر تھیں‘کینسر درکنار شوگر اور کولیسٹرول کی زیادتی بھی نہیں۔ محمد رفیق ڈوگر سے شناسائی زمانہ طالب علمی میں ہفت روزہ زندگی اور بادبان میں چھپنے والی ان کی تحریروں‘کالم ’’دید شنید‘‘ سے ہوئی‘صحافت کا آغاز ماہنامہ اردو ڈائجسٹ سے کیا تو ان دنوں ڈوگر صاحب ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کے ایڈیٹر تھے‘پھر وہ نوائے وقت میں چلے گئے‘ایک دبنگ رپورٹر کے طور پر مختلف تقریبات بالخصوص پریس کانفرنسوں میں نامور سیاستدانوں اور طاقتور حکمرانوں سے الجھتے ہوئے دیکھا‘اپنی بات وہ ڈوگرانہ انداز میں کہتے اور سچ اگلوا کر رہتے۔نوائے وقت میں دوران ملازمت انہوں نے بعض معرکے کی خبروں سے نیک نامی کمائی ‘کبھی دبائو میں آئے نہ اپنی خبر کی تردید پر آمادہ ہوئے‘حمود الرحمن کمشن رپورٹ سب سے پہلے رفیق ڈوگر نے افشا کی‘ایوان اقتدار میں کھلبلی مچی مگر مجید نظامی صاحب کے ہوتے ہوئے رپورٹر کا بال بیکاکون کر سکتا تھا‘سو ڈوگر صاحب شانت رہے‘’’مزاجاً لئے دئیے رہنے والے شخص تھے مگر ان میں حس مزاح تھی اور ان کے کالموں میں اس کی جھلک نظر آتی‘ایک بار مجھے کہنے لگے۔آپ کے جد اعلیٰ اپنے نام کے ساتھ سیّد کا لاحقہ نہیں لگاتے تھے میرے منہ سے برجستہ نکلا‘یقینا ڈوگر لگاتے ہوں گے‘خوب محظوظ ہوئے۔ عرصہ دراز سے انہوں نے مجلسی زندگی ترک کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لی‘راجپوت ٹائون میں واقع اپنے گھر میں البتہ دوستوں کا استقبال خوشدلی سے کرتے اور خوب گپ شپ لگتی‘مختلف سیاستدانوں‘جرنیلوں اور صحافیوں کا ظاہر باطن ان پر عیاں تھا‘اپنی ڈائری میں انہوں نے بہت کچھ لکھ رکھا تھا جو ان مجلسوں میں پڑھ کر سناتے اور مشورہ مانگتے کہ اسے شائع کرنا چاہیے یا نہیں؟۔شخصیت پرستی ان میں نام کو نہ تھی اور وہ ہر ایک کے بارے میں جملہ تفصیلات سے آگاہ کرتے‘ایک بار مجھے حضور کریم ﷺ کی خواب میں زیارت کا واقعہ سنایا اور دیر تک اس عنائت خسروانہ کا شکر بجا لاتے رہے‘کئی سال سے ان کا اوڑھنا بچھونا کتابیں تھیں‘ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر‘احادیث و سیرت کی کتب اور انبیا کرام‘صحابہ عظام کے واقعات کا مطالعہ کرتے اور ماحصل دوستوں کو بتاتے‘ڈیڑھ دو ماہ قبل فون پر بات کی ‘جنرل عبداللہ ملک کی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات اور جنرل ضیاء الحق کے ردعمل کی تفصیل پوچھی بولے کچھ یاد نہیں‘پھر ملاقات ہو سکی نہ بات‘اتوار کی دوپہر عزیزم علی عزیر نے اطلاع دی کہ ابّو چل بسے‘تدفین کے بعد علی عزیر نے بتایا ’’پندرہ دن قبل ہی تفسیر اور سیرت کی کتابوں کے مسودے میرے سپرد کئے اور وصیّت کی کہ ان کی اشاعت جاری رکھنا‘دوران غسل والد کا چہرہ ویسا ترو تازہ نظر آیا جیسا میں نے اپنے بچپن میں دیکھا‘‘ ؎ نشان مردِ حق دیگرچہ گوئم چو مرگ آید تبسم بر لب اوست (اقبالؔ) کہتے ہیں کینسر موذی مرض ہے دو چار برس میں انسان کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے مگر رفیق ڈوگر نے قوت ایمانی اور جذبہ عشق رسولؐ سے اپنے جسم پر حملہ آور کینسر کو اکتیس سال تک ایک سینٹی میٹر آگے نہ بڑھنے دیا‘ اپنا کام مکمل کر کے چھوڑا ؎ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے