لوگ کہتے ہیں مرا زہرہ جمال اچھا ہے صرف اچھا ہی نہیں ہے وہ کمال اچھا ہے کتنا دشوار ہے لوگوں سے فسانہ کہنا کس قدر سہل ہے کہہ دینا کہ حال اچھا ہے آج ذرا تخلیق کی بات کرتے ہیں کہ غالب نے تو بات ہی ختم کر دی کہ آتے ہیں عیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے۔ ہم تو اس بات پر سر دھنتے ہیں کہ چچا نے قلم کے گھسیٹنے کی آواز سنی اور اسے فرشتے کی آواز سے جا ملایا۔ یہ انہی کا حصہ تھا کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے‘ بہرحال یہ ایک پراسرار اور گھمبیر عمل ہے ہر کوئی سخنور بھی ایسا نہیں کہ اقبال کی طرح شعر کہتا جائے اور اس کو گانٹھیں مارتا جائے اور صبح عقدہ کشائی صفحہ قرطاس پر آ جائے اوریجنل شاعر تو خواب بھی بے وزن نہیں دیکھتا۔ مگر بحر بے کراں میں شاعری کرنے والے بہت ہیں۔ یہ کالم اصل میں ایک قضیے کے حوالے سے مجھے لکھنا پڑا کہ نوجوان ہماری طرف دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں کچھ کہوں محترمہ صوفیہ بیدار نے بھی اس حوالے سے تندو تیز تحریر لکھی اور کچھ نوجوانوں نے بھی ساحر لودھی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ بے چارہ اب تک معذرتیں کر رہا ہے میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہوں گا کہ شعر اس کا مسئلہ نہیں۔ بہرحال اس کو احتیاط برتنا چاہیے تھی کہ بیت بازی میں کوئی قادر الکلام شاعر کو بٹھا لیتا جیسا کہ اپنے عہد کے لیجنڈ جناب طارق عزیز کرتے تھے۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ وہ خود شاعر تھے ہمزاد دکھ‘ان کا شعری مجموعہ تھا۔ یہ وزن کا معاملہ بہت عجیب ہے استاد تو اسے بھی بحر میں سمجھاتے تھے: اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن مگر کمال بے نیازی میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ’’ من نہ دا نم قاعلتعن فاعلات‘‘۔ کہ استاد تو ہمعصروں کو پکڑ لیتے تھے کہ بحر اجز میں ڈال کے بحر رمل چلے۔ مگر ایسی لڑائیوں میں بڑے بڑے شعر بھی برآمد ہوئے۔ اس مشہور لڑائی میں اعتراض کے جواب میں ہی یہ بڑا شعر سامنے آیا: گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا کرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے ایک اور رنگ بھی دیکھ لیجیے: بحررجزمیں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں اچھا شعر خود ہی اپنی بحر اور زبان لے کر آ جاتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ فن اور علم کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے میں وہ کلاسیکل موضوع آمد اور آورد میں نہیں پڑوں گا۔ ویسے کمہار بھی اپنے برتن بنانے کے لئے مٹی پر محنت کرتا ہے۔ یہ آرٹ بھی ہے مگر اصل چیز موضوع اور قدرت کی دی گئی صلاحیت ہے جو اسے مترنم اظہار بناتی ہے۔ یہ عطا کی بات ہے ۔اچھا شعر اچھا ہوتا اور پہچاننے والے پہچان لیتے ہیں۔ صائب کا شعر یاد آیا: صائب دو چیز می شکند قدر شعر را تحسین ناشناس و سکوت سخن شناس یعنی صائب کے بقول دو چیزیں شعر کی قیمت کو کم کر دیتی ہیں کہ شعر سن کر شعر سے نابلد اس کی تحسین کرنے لگے اور شعر شناس خاموش ہو جائے میر نے تو ایک دن بھری محفل میں کہا کہ وہ آج بہت غمگین ہیں پتہ چلا کہ اس دن ان کو ایک ایسے شخص نے داد دی جو سب کو داد دیتا ہے حافظ و غالب و اقبال سے محبت ہے ہمیں۔ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں۔ اس حوالے سے مجھے احمد مشتاق بہت اچھے لگتے ہیں۔ ایک ملال ہے کہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی کہ وہ وہ امریکہ جا کر بیٹھ گئے۔ کہتے ہیں نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں۔اس غزل کے دو اور اشعار ذرا دیکھیے اور لطف اٹھائیے: موسم گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھوں کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں دیکھا آپ نے پیارا شعر دل میں کھپ جاتا ہے۔ ہاں سنانے والا بھی سخن فہم ہو تو کیا ہی بات، وگرنہ بعض لوگ تو کوڑے کی طرح شعر مارتے ہیں ایک ہمارے شاعر دوست ہیں وہ اس طرح سے وزن میں شعر کہتے یں کہ وہ شعر نہیں رہتا۔ وزن میں ہونے کے باوجود اسے موزوں طبع پڑھ نہیں سکتا۔ بہت اچھے شعر میں بعض اوقات شاعر کی ذرہ بھر محنت نہیں ہوتی اظہار شاہین کا شعر اس کی بہترین مثال ہے!تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے جو بھی ہے تخلیق ایک عجیب عمل ہے جیسے کہ بادل سمندر سے پانی اٹھاتے ہیں ہوائیں انہیں دوش پر لاد کر چلتی ہیں اور پھر وہ مردہ زمین پر برستے ہیں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں یہ سارا قدرت کے اختیار میں ہے۔ اس میں کوئی بھٹک جائے تو اس کی کم ظرفی ہے وگرنہ اودھے اودھے نیلے نیلے‘ پیلے پیلے پیرہن نظر تو آتے ہیں۔ کچھ تردد تو بہرحال شاعر کرتا ہے کہا جاتا ہے کہ ایک منظر کو شاعر بھی دیکھتا ہے اور عام آدمی بھی مگر شاعر اس کا نوٹس لیتا ہے اس حوالے سے مجیب امجد کا شعر مجھے ہمیشہ ہانٹ کرتا ہے: میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے میں آج ادھر سے نہ گزرں گا کون دیکھے گا میں پھر اس قضیے کی طرف آتا ہوں اور کہوں گا کہ ایسی بات کو مسکرا کر جانے دیں ہاں یہ غلطی کسی اہم شاعر سے سرزد ہو تو آپ نوٹس بھی لیں آپ ایک واقعہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ ایک مرتبہ کئی کتابوں کے مصنف نے میری توجہ ایک ریک کی طرف دلائی جہاں اس کے کلیات اقبال کے کلیات کے ساتھ پڑے تھے۔ میں نے ازراہ مذاق کہا کہ یہی تو شتر گربہ ہے۔اس نے میرا شکریہ ادا کیا مگر اگلے روز مجھے ڈھونڈتا رہا۔ پتہ چلا کہ وہ بہت غصے میں ہے۔ اب یہ شتر گربہ آپ کہیں سے پوچھ لیں۔ ویسے شتر اونٹ کو کہتے ہیں اور گربہ بلی کو ادب کی یہ اصطلاح ہے کہ آپ تم کے ساتھ تیرا۔ استعمال کر دیں۔ خیر چھوڑیے آپ یہ سمجھ کر کیا کریں گے کوئی سٹیج پر اگر اپنے آپ کو مہا شاعر ثابت کر رہا ہے تو وہ خود ہی اپنے آپ کو ایکسپوز کرتا ہے۔ اپنے دوست اسلم کولسری کا ایک مطلع کہ آج بھی کتنا برمحل ہے: زلزلے کا خوف طاری ہے درو دیوار پر جب کہ میں بیٹھا ہوا ہوں کانپتے مینار پر