عمر کے اکتالیس برس بیت جانے کے بعد ،مُجھے پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی،کہ اکتالیس سال کی گٹھڑی ہمیشہ اُٹھائے رکھی ہے۔معاملہ کچھ یوں رہا،راہِ وفامیں ہرسُو کانٹے،دھوپ زیادہ سائے کم؍لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم۔اگرچہ ہمارے حصے میں دھوپ زیادہ آئی ،لیکن زندگی کا یہ سفر بہت خوشی خوشی گزاراہے اور گزار رہاہوں،کہ زندگی کے ایک ایک لمحہ کی کوئی قیمت ہی نہیں۔جب بھی مشکل وقت آیاہے تو یہ سوچ کر اُس کا ٹالاکہ کوئی بھی غم،دُکھ،درد زندگی کے وجود کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتا،اگر زندہ ہوں تو یہ غم بھی ہیں ،دُکھ اور درد بھی۔ایک معروف ماہرِ نفسیات کے مطابق،اصل درد تو موت کا درد ہے۔مجھے زندگی سے ہمیشہ بے پناہ محبت رہی ،اس لیے مَیں ہمیشہ زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہوں ،زندگی سے بے پناہ محبت نے مجھے یہ احساس دلایا کہ زندگی کو خوب صورت بنایا جائے ،اس لیے مَیں جو بھی کام کرتا ہوں ،لکھتا ہوں ،پڑھتاہوں،بچوں کو سکول چھوڑتا ہوں،نوکری کرتا ہوں ،سفرکرتا ہوں ،کسی سے بات کرتا ہوں ،غرض جو بھی کام کرتاہوں ،تو دَرحقیقت زندگی کو خوب صورت بنانے کے لیے کرتا ہوں۔ میری کوشش رہی کہ شعوری سطح پر کسی کا کوئی نقصان نہ کیا جائے ،کسی کو دُکھ اور تکلیف نہ دی جائے ،کسی کے ساتھ بُرا نہ کیا جائے ،مگر پھر بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔مَیں ایسا نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں کرتا رہا ہوں ؟اس سوال کا بہت شفاف اور واضح جواب یہ ہے کہ ثقافتی گھٹن کا حامل سماج تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ایسے سماج کا فرد ایسی زنجیروں میں بندھ جاتا ہے ،جو اُس نے نہیں بنائی ہوتیں۔یوں اُس کی زندگی میں بے شمار ایسے واقعات ہوتے ہیں ،جن کے وقوع پذیر ہونے میں اُس کی مرضی قطعی شامل نہیں ہوتی۔مَیں نے اپنی زندگی میں بعض دوستوں کو ناراض کیا،بعض مخلص دوستوں، اساتذہ اور انسانوں کے دِ ل دُکھائے تو اُس کے پیچھے شعوری کاوش شامل نہیں رہی۔خیر!زندگی کی آج تک کی گٹھڑی میں میری اپنی اور اردگرد کے اپنے لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی ’’کوششیں ‘‘سب سے زیادہ ہیں۔مجھے دوسروں کو بدلنے کا نفسیاتی عارضہ نہیں،مَیں محض ایسی زندگی کی خواہش رکھتا ہوں ،جس میں بدصورتیاں کم ازکم ہوں۔یوں بدصورتیوں کے خاتمے کی کوشش میں ،زندگی کی پیداہونے والی خوب صورتیاں انسانوں کو بدل کررکھ دیتی ہیں۔مجھے اُس شخص سے ہمیشہ محبت رہی ہے ،جو اپنے گھر اور اپنی گلی کو صاف رکھتا ہے ،جو گٹر میں شاپر نہیں پھینکتا،جو ہارن نہیں بجاتا،جو دوسروں کو عقیدے کی تبلیغ نہیں کرتا،جو لوگوں کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتا ہے ،جواپنے گھر کے صحن اور گلی میں پیڑ لگاتا ہے اور پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے ،جو دوسروں کو اُن کی خامیوں اور خوبیوں سمیت قبول کرتا ہے ،جو قہقہے لگاتا ہے ،جو راتوں کی گہری تاریکی کے زور کو کم کرنے کے لیے چراغ جلاتا ہے ،جوہ ہمہ وقت دوستوں کا منتظر رہتا ہے ،جو کسی بھی نظریے کو زندگی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور جو انسانوںسے بے لوث محبت کرتا ہے۔مجھے سب لوگ یا دہیں ،مگر ،جنھوں نے میرا کبھی استحصال نہیں کیا،جنھوں نے مجھے تعصبات کی تعلیم نہیں دی ،جنھوں نے مجھے روزگار مہیا کرنے میں مساعی کی،جنھوں نے میرے تعلیمی اخراجات میں مدد کی ،جنھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی،،جنھوں نے بیماری سے نجات دلانے کے لیے میری مدد کی ،اُن سب کی یادہمہ وقت ایسے تازہ رہتی ہے،جیسے تازہ کھلے پھولوں کی خوشبو ہو۔جیسے فاختہ کی آواز اور اُس کے پرندوں کی نرم پھڑپھڑاہٹ ہو۔ میری زندگی کا زیادہ وقت خواب دیکھتے گزرا ہے۔ایک خواب کا عکس ابھی مَدھم نہیں پڑتا کہ دوسرا ذہن کے نہاں خانوں میں اُبھرتا چلا آتا ہے۔مَیں شام کی واک کے دوران اپنے خوابوں کو دہراتا رہتا ہوں اور اُن کی تعبیر کے منصوبے بناتارہتا ہوں۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یہ خواب ہی،میری زندگی کے ماہ وسال ہیں۔جیسے جیسے خواب ختم ہوتے جائیں گے ،یہ ماہ وسال بھی اختتام پذیر ہوتے چلے جائیں گے۔پھر ایک وقت آئے گا ،جب میری آنکھوں میں آخری خواب اُترے گا۔لیکن ابھی میرے پاس بہت خواب ہیں ،جو دیکھ رکھے ہیں اور شام کے سائے پڑتے ہی ،واک کے دوران اُن کی تکمیل کے منصوبے بنانا شروع کردیتا ہوں۔میرے بعض دوست جب یہ کہتے ہیں کہ میرا ذہن بڑے بڑے منصوبے بنانے کے لیے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تو خوشی و افتخار کی لہر پیدا ہو اُٹھتی ہے ۔پھر ایک روز ایسا آئے گا کہ مَیں اپنے خوابوں کے تعاقب میں چلتا چلتا اپنے آخری خواب کے قریب، نہرکنارے چھوٹے سے گھر میں جا پہنچوں گا۔یہ گھر درختوں میں گھِرا ہواگا،زمین کے سینے پر لہلاتی فصلوں کا قبضہ ہوگا،گھر میں بھیڑیں ہوں گی ، بکریاں اورمرغیاں۔سبزیوں کے ننھے کھیت ہوں گے ،پھل داردرختوں کی قطاریںہوں گی۔گھر کا دروازہ کھیتوں میں کھلے گا،مَیں یہاں اطمینان اور مرضی کی زندگی جیوں گااور اس زندگی کا ایک ایک پَل صدیوں پر محیط ہوگا،پھر ایک دِن ایسا آئے گا کہ جون کی سخر دوپہر پرندوں اور پودوں کے بیچ گزاروں گا،عصر کے وقت چائے پیوں گا،اپنی لکھی ایک کتاب کے کچھ صفحات پڑھوں گااور پھر کچھ دیر کے لیے چارپائی پر لیٹے لیٹے آنکھیں مُوند لوں گا،یہ لمحہ ایسا ہوگا کہ مَیں بالکل خالی الذہن ہوں گا۔پھرشام سے تھوڑا پہلے گھر کا دروازہ کھولوں گا،سامنے کھیتوں کے بیچوں بیچ چلتا چلتا،سبزے میں کہیں گم ہوجائوں گا۔پیچھے دروازہ کھلا رہ جائے گا،بھیڑیں اور بکریاں گھاس چرتی رہ جائیں گی ،مُرغیاں اپنے ڈربے میں جا پہنچیں گی۔یہ گھڑی وہ گھڑی ہوگی جب زندگی کا آخری خواب سرسبز کھیتوں میں تحلیل ہو چکا ہوگا۔شام کا سورج ڈوب چکا ہوگا،سرخی کی ایک لکیر آسمان سے کھنچی آئے گی اور فصلوںکے اُوپر سے گزرتی نہر کے پانی میں جذب ہوجائے گی۔دُور کی مسجد کے مینار جاگ اُٹھیںگے۔