بالآخر بیگم کلثوم نواز چل بسیں۔ کینسر کا موذی مرض انسان کی جان لے کر ہی ٹلتا ہے البتہ جنہیں پہلی یا دوسری سٹیج پر پتہ چل جائے‘ شوکت خانم کینسر ہسپتال یا انمول جیسے ادارے میں علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہو ‘وہ خوش بخت اس کے مُنہ سے بچ نکلتے ہیں۔ جو خود یا ان کے عزیز و اقارب ان مراحل سے گزرے وہی جانتے ہیں کہ پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال کتنی بڑی نعمت ہے۔ موت سے مگر پھر بھی مفر نہیں۔ کل من علیہا فان     ؎

موت سے کس کو رُستگاری ہے

آج وہ‘ کل ہماری باری ہے

                (شوق لکھنوی)

موت ہی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کوئی سکندر و دارا‘ کوئی محمد علی کلے اور راک فیلر اپنی جاہ و حشمت‘ اقتدار و حکمرانی‘ قوت و طاقت اور ان گنت دولت سے موت کو شکست دے سکتا ہے نہ زندگی کی چند مستعار ساعتوں میں اضافے اوربے انداز دولت قبر میں لے جانے پر قادر۔ کفن کی جیبیں ہوتی ہیں نہ قبر میں مادی سہولتیں دستیاب کہ ورثا اہتمام کر سکیں    ؎

مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اور مالی تھے

سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہر ذی نفس یہ پیغام دے کر جاتا ہے      ؎

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ وپیوند

بتانِ وہم و گماں لاالہ الا اللہ

زودفراموش انسان مگر آنکھوں دیکھے واقعات کو محض گماں تصور کرتا اور بھول جاتا ہے کہ ایک دن وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہونے والا ہے ۔ہاں البتہ جو لوگ دنیا کو آخرت کی کھیتی اور مال و اولاد کو آزمائش سمجھتے ہیں ان کا معاملہ مختلف ہے۔ ہم کھلی آنکھوں سے دونوں طرح کے لوگ دیکھتے ہیں ایک وہ جو مال و دولت کی ہوس میں سب کچھ بھول گئے‘ دولت کے انبار لگائے‘ کئی نسلوں کی خوشحالی کا سامان کیا اور نمود و نمائش میں ہر ایک کو پیچھے چھوڑ دیا ۔پتہ مگر اس وقت چلا جب فرشتہ اجل نے آ لیا اور مال و دولت کے انبار‘ خوش قسمت و خوشحال بیٹوں ‘ بیٹیوں‘ پوتوں نواسوں کا جمگھٹا اور بے تحاشہ اسباب تعیش میں سے کوئی بھی کچھ کام نہ آیا۔زندگی اور صحت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی قدرو قیمت انسان کو موت اور بیماری کے بعد معلوم پڑتی ہے۔ مجید نظامی صاحب مرحوم سہگل خاندان کے ایک اہم فرد کا واقعہ بیان کیا کرتے تھے جسے ’’بے خوابی‘‘ کا مرض لاحق ہو گیا۔ ہمارے ہاں بہت سے شب بیدار لوگ بنیادی طور پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ خود سوتے ہیں نہ کسی اور کو سونے دیتے ہیں۔جبکہ لوگ انہیں ان تھک گردان رہے ہوتے ہیں۔ رئیس شخص نے اندرون و بیرون ملک ہر طرح کا علاج کرایا مگر بے سود۔ ایک روز اپنے جگری دوست اور معالج ڈاکٹر رمضان علی سید سے کہنے لگے ‘شاہ جی! اگر آپ مجھے ایک بار دو دن مسلسل سوتے رہنے کا موقع فراہم کر دیں تو میں اپنی آدھی جائیداد آپ کے نام کر دوں گا۔ رمضان علی سید نے کہا ناممکن البتہ اللہ سے لو لگائیں شاید وہ پاک پروردگار رحم فرمائے اور آپ گہری نیند کے مزے لوٹ سکیں۔ الابذکراللہ تطمئن القلوب(بے شک اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پاتا ہے)

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کی ہر نعمت‘ اولاد‘ مال و دولت‘ جاہ و حشمت اور اقتدار و اختیارسے بہرہ مند ہونے کے باوجود اللہ کو بھولتے ہیں نہ اس کی مخلوق کو نظرانداز کرتے ہیں یہی قلب مطمئنہ ہیں حزن و ملال کبھی جن پر طاری ہوتا نہ خوف و خطر غلبہ پاتا ہے ۔انبیاء کرام کے بعد یہ اولیاء و اصفیا ہیں‘ اللہ کے برگزیدہ بندے جو لینے سے زیادہ دینے پر یقین رکھتے اور ہمہ تن خدمت خلق میں مشغول رہتے ہیں۔ ڈیرہ غازیخان کے ایک بزرگ حضرت فیض محمد شاہ جمالی ؒ کا زندگی بھر یہ معمول رہا کہ وہ کل کے لیے گھر میں کچھ بچا کر نہ رکھتے ‘کھانے پینے کی ہر چیز گندم‘ آٹا‘ گھی ‘ سبزی‘ دال بانٹ دیتے۔ دوست احباب اہل خانہ اور عقیدت مند اصرار کرتے کہ کل بھی یہ ضرورت مندوں کے کام آئے گا مگر فرماتے’’شب درمیان‘ ربّ مہربان‘‘ یہی لوگ دھرتی کا نمک ہیں اور ان کی قبریں مرجع خلائق۔ حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویریؒ کے مزار پر رات نہیں اُترتی‘ لاکھوں لوگ روزانہ ان کے نام پر لنگر سے شکم پری کرتے ہیں۔ لاہور میں مثل مشہور ہے کہ خالص دودھ بھینس کے ’’کٹے‘‘ پیتے ہیں یا داتا صاحب کے مزار پر حاضری دینے والے عقیدت مند کہ یہاں کوئی ملاوٹی دودھ بھیج کر داتا کے حضور شرمسارہونا نہیں چاہتا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار اقدس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہندوستان کے حکمران جہانگیر کی قبر ہے جس کا برصغیر میں طوطی بولتا‘سکّہ چلتا تھا اور جو انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے سنایا کرتا۔ شہنشاہ ہند کا دبدبہ دیدنی تھا اور ہیبت سے شیر کا پتہ پانی ہوتا مگر اب      ؎

برمزار ماغریباں نے چراغے نے گلے

نے پرِپروانہ سوزد نے صدائے بلبلے

حضرت شفیق خلجیؒ حضرت امام جعفر صادقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایثار و فتوت کا مفہوم معلوم کرنا چاہا۔ امام نے فرمایا پہلے آپ بتائیے کہ ایثار و فتوت کے باب میں آپ کی رائے کیا ہے؟ شفیق خلجیؒ نے عرض کیا’’مل جائے تو شکر کرتے ہیں نہ ملے تو صبر‘‘ امام بولے ہمارے شہر کے کُتّوں کا بھی یہی وطیرہ ہے کچھ مل جائے تو خوشی سے کھا لیتے ہیں نہ ملے تو چپ چاپ مالک کے درپر پڑے رہتے ہیں۔ بات بلخ کے شیخ کے دل کو لگی‘ عرض کیا پھر آپ ہی کچھ فرمائیے یا امام! نواسہ رسولﷺ نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایثار و فتوت کا مفہوم یہ ہے کہ’’ کچھ بھی نہ ملے تو شکر کرتے ہیں اور کچھ مل جائے تو دوسروں میں بانٹ دیتے ہیں‘‘ویوثرون علی انفسِھم و لوکان بھم خصاصہ(اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں اگرچہ وہ خود فاقہ میں مبتلا ہی کیوں نہ ہوں)

ایثار و قربانی کو شعار کرنے اور اپنی ضرورتوں کو دوسروں کی حاجات پر قربان کرنے والوں کے دم سے یہ دنیا دائم آباد ہے ورنہ حرص و ہوس کے بندوں نے دھرتی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم تو خیر ایک پسماندہ اور نسبتاً محروم معاشرے کا حصہ ہیں جہاں بانٹنے کے بجائے مانگنے والوں کی کثرت ہے مگر ترقی یافتہ اور خوشحال معاشروں میں بھی محرومی اور تنگدستی انسانوں کا مقدر ہے اور دولت کے انبار ان کی بھوک مٹانے میں مددگار ہیں نہ ان کی دیگر انسانی ضرورتیں پورے کرنے کے لیے کافی۔

وجہ وہی ایک کہ ’’من و تو‘‘ کی تقسیم برقرار ہے اور انسان ’’میرا مال‘‘ ’’میری اولاد ‘‘اور ’’میری زمین‘‘ کے چکر سے باہر نہیں آیا۔ کثرت کی خواہش نے اچھے بھلے سیانے بیانے لوگوںکی مت مار دی ہے اور وہ قبر کے کنارے پہنچ کر بھی اس بلائے بے اماں پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ کسی کو یاد نہیں کہ خالی ہاتھ آئے تھے‘ خالی ہاتھ جانا ہے۔ جس مال‘ اولاد کی خاطر انسان بائولا ہوا پھرتا ہے حق تلفی اور خود فراموشی و خدا فراموشی پر اترا ہے وہ اگلی دنیا خیر دور کی بات ہے اس دنیا میں بھی شائد کام آئے یا نہ آئے۔    ؎

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بونے

کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تونے

جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سونے

ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

بڑھاپے سے پا کر قیام قضا بھی

نہ چونکا نہ جاگا نہ سنبھلا ذرا بھی

کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟

جنوں چھوڑ کر اپنے ہوشوں میں آ بھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے