یہ نہیں ہے تو پھر اس چیز میں لذت کیا ہے ہے محبت تو محبت میں ندامت کیا ہے خوب کہتا ہے نہیں کچھ بھی بگاڑا اس نے ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا اور پھر آج کی صورت حال بھی پیش نظر ہے خود فریبی میں بھلا کیسے یقین آ جائے، جھوٹ بولا ہے تو پھر اس میں صداقت کیا ہے تو جناب یہی کچھ تو ہو رہا ہے کہ اپنے جھوٹ میں صداقت دکھائی جا رہی ہے اور دوسرے کے سچ میں جھوٹ تلاش کیا جا رہا ہے ۔اپنی بات بدل لینا اور دوسرے کی بات بدل دینا یہی تو فنکاری ہے۔ بہرحال میں لفظ کی کھال اتارنا نہیں چاہتا کہ پردہ ضروری ہے یہ لاعلمی بھی تو پردا ہے کہ ابجد راز کشا ہوتا ہے ہائے ہائے غالب سامنے آن کھڑے ہوئے تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا معزز قارئین ہم ادبی باتیں بعد میں کریں گے پہلے ایک بے ادبی کی بات ہو جائے میری مراد یہ نہیں کہ کوئی سیاست کی بات کرتے ہیں نہیں نہیں بالکل نہیں بات مجھے کرنا ہے گرگٹ کی یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ یہ جانور جو کچھ چھپکلی نما ہوتا ہے رنگ بدلتا ہے اور اردو لغت میں بھی ہو گا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا۔اصل میں میں نے تو ایک کلپ دیکھا جس میں بتایا گیا تھا کہ گرگٹ کا رنگ کیسے بدلتا ہے اس ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا ہے کہ جب وہ کیلے کے گچھے یا لنگر پر آتا ہے تو خود بخود اس کا رنگ پیلا ہو جاتا ہے اس کے بعد وہ چیری پر آتا ہے تو اس میں چیری کا رنگ سرایت کر جاتا ہے علیٰ ہذا القیاس۔بندہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے یہ تو اس چھوئی موئی کے پودے کی طرح ہے کہ جسے انسانی ہاتھ چھو لے تو اس کے پتے سمٹ جاتے ہیں گرگٹ کے اس عمل کو دیکھ کر مجھے کئی سیاسی چہرے یاد آئے بلکہ کچھ تو اب بھی ہیں جو روز سکرین پر نظر آتے ہیں ایسے ہی کسی کا شعر سامنے آ گیا: بدلا جو رنگ آپ نے حیرت ہوئی مجھے گرگٹ کو مات دے گئی فطرت جناب کی گرگٹ کو انگریزی میں Lizardکہتے ہیں مطلب یہ کہ ان میں بھی گرگٹ ہوتے ہیں۔خیال آیا کہ رنگ بدلنے کے علاوہ آنکھیں بھی تو بدل جاتی ہے جسے طوطا چشمی کہتے ہیں محاورے میں آنکھیں ماتھے پر رکھ لی جاتی ہیں وہی کہ مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں۔ فراز صاحب کا خوبصورت شعر یاد آ گیا: یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں اکی انداز شہزاد احمد صاحب کے ہاں بھی ہے: چوٹیاں چھو کر گزرے ہیں برستے کیوں نہیں بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے فضائوںمیں ارتعاش سا ہوا تو کانوں میں مشہور مکھڑا گونج گیا اور اپنے محسن قتیل شفائی یاد آ گئے ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا۔زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر‘قتیل صاحب ایک شعر تو شاید عوام کے لئے ہے دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی۔جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔ بات تو چلی تھی گرگٹ سے کہ اس میں رنگ بدلنے کی یا کسی کے ہم رنگ ہو جانے کی خصوصیت ہے مگر حالات کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جانا ڈپلومیسی بھی تو کہلواتی ہے۔آپ تھالی کا بینگن والا محاورہ بھی یاد کر سکتے ہیں اس کے لئے سیاست میں لفظ لوٹا استعمال ہوتا ہے بہرحال گرگٹ طوطے کے مقابلے میں کوئی اچھا لفظ نہیں شاید لوٹا بدلنے کی بجائے گھومتا ہے لیجیے مجھے اچانک اس بدل جانے پر اپنی پھپھو جان نصرت طاہرہ انجم کا شعر یاد آ گیا: انجم ذرا تو دیکھ تو ناصح کی شوخیاں/پہلو بدل کے مجھ سے بھی پہلے بدل گیا اور پھر محبوب کا بدل جانا تو زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ کسی بھی بات سے مکر سکتا ہے: در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسے پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا یہ تبدیلی تغیر ہی تو ہے کہ صرف جسے ثبات ہے ہمارے ہاںتو باقاعدہ روزانہ کے حساب سے تبدیلی آتی ہے بلکہ بعض اشیا کی قیمتیں ایک روز میں دو مرتبہ بھی بڑھ جاتی ہیں آپ وہی چیز دوبارہ لینے گئے تو پتہ چلا بیس روپے اور بڑھ گئے۔میں آپ کو کوئی لطیفہ نہیں سنا رہا۔ا سچ بتا رہا ہوں۔ایک برانڈ کی روٹی جو میں لینے گیا پتہ چلا کہ 95کی بجائے 110روپے کی ہو گئی ہے پوچھا تو سیلز مین ہنس پڑا اور بولا سر رات ہی اس کی قیمت بڑھی ہے۔بڑھی بھی 15روپے ۔ بیویاں اس حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔میں نے اخبار کھولا تو بولی آج کس شے کی قیمت بڑھی ہے شے سے مراد یقینا بجلی‘پٹرول اور گیس ہی ہوتی ہے باقی تمام اشیاء کا دارو مدار انہی تین چیزوں پر ہے عجب سے خیالات ذھن میں آنے لگتے ہیں۔ایک وقت تھا جب لوگ خوش ہو کر بتاتے تھے کہ فلاں کے گھر بجلی آ گئی ہے اب شاید وہ وقت نہ آ جائے کہ کوئی کہے فلاں نے میٹر کٹوا دیا ہے۔ کیسی مزے کی بات ہے کہ حکومت بھی تبدیلی کی بات کرتی ہے اور اس نے بہت کچھ تبدیل کر بھی دیا ہے ۔ اپوزیشن بھی تبدیلی کی بات کرتی ہے کہ مینڈٹ تبدیل کر دیا گیا یعنی انتخاب کے نتائج تبدیل کئے گئے۔یہ ذھن میں ہے کہ صرف ہمارا نظام مستقل مزاج ہے ہاں ہاں حکمرانوں کے رویے اور بیانات ہی تبدیل نہیں ہوتے مثلاً آج وزیر اعظم صاحب کا بیان ہے کرپشن کرنے والا جو بھی ہو گرفت میں لایا جائے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو پکڑنے کے لئے کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے۔کوئی شخص بھی کرپشن کو پسند نہیں کرتا مگر کرتا ضرور ہے۔میرا مطلب ہر کرپٹ آدمی۔کرپشن کرنے والے اصل میں مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں ان کے لئے تو آرڈی ننس بھی آ جاتے ہیں نیب کے پرکاٹ دیے جاتے ہیں۔ بڑے کرپٹ لوگ حکمرانوں کے ہاتھ سے ایسے چھوٹ جاتے ہیں جیسے نور جہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گئے تھے۔خاں صاحب نے اچھی بات کی کہ موجودہ حکومت میں کرپشن کرنے والوں کے ساتھ رعایت نہ برتی جائے۔انیس احمد کا خوبصورت شعر اور اللہ حافظ: ہے علاج غم ہنسی‘لقمان سے نسخہ ملا میں نے عادت ہی بنا لی اور میں ہنسنے لگا