ریاست اس طرح ردعمل ظاہر نہیں کیا کرتی۔ لوگوں کو لانا اور پھر یوں فارغ کردینا۔ وزیراعظم کی ترجیحات کیا تھیں۔ وہ تو حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی جانتے تھے انہیں کیا کرنا ہے۔ بلاامتیاز احتساب‘ نوجوانوں کے لیے روزگار و فعال کردار ادا کرنے کے مواقع‘ سرکاری اداروں کو جدید آئی ٹی نظام سے مزین کرنا اور پاکستان کو ڈیجیٹل مارکیٹ بنانا‘ پورے ملک سے رنگ رنگ کے نصاب ختم کر کے یکساں نصاب کا نفاذ‘ بے گھروں کے لیے سستے گھروں کی تعمیر‘ ہسپتالوں کا قیام اور نئی بیماریوں کے لیے جدید میڈیکل ٹیکنالوجی کا حصول اور نئے ڈیموں کی تعمیر‘ یہ وہ وعدے تھے جو عام آدمی سے کئے گئے۔ حکومت دو سال کی ہو چکی ہے‘ سارے نہ سہی وعدوں کا کچھ حصہ مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ کورونا نے یقینا ہرپالیسی کو متاثر کیا اور عوام کی بہبود کے لیے تیار منصوبوں کا روپیہ کورونا کے انتظامات پر خرچ ہوا۔ جن معاملات پر حکومت کی کارکردگی تھوڑی بہت دکھائی دے رہی ہے‘ ان میں سے ایک نئے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ مہمند ڈیم پر پچھلے سال کام شروع ہوا تھا۔ بھاشا ڈیم پر دو ماہ قبل تعمیراتی کام شروع ہوا۔ آزاد کشمیر میں آزاد پنٹن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شروع ہو چکا ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان کو سستی بجلی ملے گی۔ بجلی استعمال کرنے والے صنعت کاروں کی پیداواری لاگت کم ہوگی۔ سب سے امید افزا یہی کام ہے۔ فرض کریں کورونا کی وبا نہ آتی تو پھر کیا ہو جانا تھا۔ فنڈز تو اب بھی تمام کاموں کے لیے جاری ہو رہے ہیں۔ احتساب کا عمل تھکا تھکا دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کو اپوزیشن کے زمانے میں نیب سے جو شکایات تھیں وہ ابھی تک نیب کے نظام کا حصہ ہیں۔ ترجیح ہونے کے باوجود نیب کا پراسیکیوشن ونگ مضبوط نہیں کیا گیا۔ روز عدالتوں میں نیب کی مٹی پلید ہوتی ہے۔ ہزاروں مقدمات کی سماعت کے لیے 120 عدالتوں کی ضرورت ہے لیکن کہا جارہا ہے فنڈز نہیں۔ کیا دو احتساب عدالتوں کے ساتھ حکومت اپنی ترجیح قرار دئیے گئے بلاامتیاز احتساب کا وعدہ پورا کر سکے گی؟ صورت حال یہی رہی تو آئندہ الیکشن میں وہ سارے افراد اپنی بے گناہی کے سرٹیفکیٹس ہاتھوں میں پکڑ کر ایک بار پھر سیاسی میدان میں آ جائیں گے۔ یہ صورت حال تحریک انصاف کے ووٹرز کے لیے مایوس کن ہوسکتی ہے۔ بڑے شہروں میں نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے پر آغاز ہوا چاہتا ہے۔ لاہور میں ہلوکی کے پاس 35 ہزار ملٹی سٹوری فلیٹس کے لیے ایک کھرب سے زائد کی رقم جاری ہونے کی اطلاعات ہیں۔ منصوبے کو کسی قانونی یا تکنیکی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑا تو یہ دو سال میں تیار ہو سکتا ہے۔ یقینا دیگر شہروں میں بھی اس طرح کے کام شروع ہورہے ہوں گے۔ اس منصوبے سے تحریک انصاف کی حمایت کا دائرہ پھیلے گا۔ شہروں میں رہنے والے کم آمدن کے حامل خاندانوں کے لیے اپنی چھت ایک بڑی سہولت ہوگی۔ تحریک انصاف کو شہری علاقوں میں ان افراد کی حمایت ملی جو معاشی طور پر کسی سیاستدان‘ حکومت یا ادارے کے احسان مند نہیں۔ لوئر مڈل کلاس اور اپر کلاس میں نئے شامل ہونے والے افراد نے سابق حکمرانوں اور نظام سے خود کو نظر انداز کرنے کا بدلہ لیا ہے۔ ان افراد نے جس طرح اپنی ذاتی زندگی کو بیساکھیوں سے آزاد کیا ہے اسی طرح ان میں استعداد ہے کہ وہ ملک کو ترقی سے ہمکنار کر سکیں۔ ان لوگوں کو آئی ٹی کے شعبے میں کام کے مواقع درکار ہیں۔ تانیہ ایدروس گوگل جیسے بڑے ادارے میں اعلیٰ پوزیشن پر کام کر رہی تھیں۔ انہیں ڈیجٹل پاکستان کی سربراہ بنانے سے قبل اگر مکمل جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی تو یہ متعلقہ اداروں کی غفلت اور غیر ذمہ داری ہے اگر انہیں صرف اس لیے فارغ کیا گیا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کی دریافت تھیں تو یہ فیصلہ درست نہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں کام کرنے کی وجہ سے صحت کے شعبے کی بین الاقوامی جہتوں سے آگاہ ہیں۔ کورونا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ان کے کردار کو نظر انداز کرنا مناسب نہ ہوگا۔ ان کے استعفے کے پیچھے جو کہانیاں سننے میں آ رہی ہیں ان کی سند انکوائری کے بغیر ناقابل اعتبار ہے۔ پھر فردوس عاشق اعوان کو فارغ کرنے کی طرح اس بار بھی وزیراعظم ہائوس نے مستعفی ہونے والے معاونین کے برعکس استعفے کی وجوہات بیان کیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ منصوبے مکمل ہورہے ہیں جن میں جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ جن منصوبوں کو سویلین اداروں پر چھوڑ دیا گیا وہ شروع ہی نہیں ہوپارہے۔ عمران خان کی سیاسی گورننس غیر منتخب افراد پر انحصار کر رہی ہے۔ یہ پارلیمانی نہیں امریکہ کے صدارتی نظام سے ملتا جلتا ماڈل ہے۔ ریاست ایک بہت بڑے نظام کا نام ہے۔ ریاست کے اختیارات جن ہاتھوں میں دیئے جاتے ہیں ان کی صلاحیت‘ خیالات اور بین الاقوامی رابطوں سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ تحریک انصاف میں ایک سوچ موجود ہے جو غیر منتخب افراد کی مزاحمت کرتی ہے لیکن ایک دوسری سوچ بھی مضبوط ہورہی ہے کہ قابل اعتماد‘ غیر منتخب افراد کو اگلے سینٹ انتخابات میں منتخب کروا لیا جائے۔ برسوں پہلے ایک فلم دیکھی تھی۔ ایک دولت مند شخص شراب کے نشے میں دھت گلیوں میں گھومتا ہے۔ کسی نہ کسی غریب کو فٹ پاتھ سے اٹھاتا ہے‘ اپنا دوست قرار دے کر گھر لے آتا ہے۔ صاف ستھرا لباس‘ بہترین کھانے اور شاندار خواب گاہ دی جاتی ہے۔ صبح ہوتی ہے۔ ہوش آتی ہے اور رات کو لائے گئے دوست کو چور اچکا قرار دے کر پٹائی کرتا ہے‘ گھر سے نکال دیتا ہے۔ حکومت کی بابت نشے والی بات تو قطعی مناسب نہیں لیکن جس طرح وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر مشیر اور معاونین خصوصی لاتی ہے اور پھر ان سے استعفے لیتی ہے تو بالکل فلمی کہانی معلوم ہونے لگتی ہے۔