ظلم ہے اور بے زبانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے عدل و انصاف میں بھی استثنیٰ جبر اور ظلم کی نشانی ہے میرے معزز و محترم قارئین! آپ پریشان نہ ہوں میں آج ہلکا پھلکا اور مزیدار سا کالم لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ جوتے کا سلسلہ کچھ دراز ہوا جاتا ہے کہ اب ایک سردار کی اپنے ملازم کو جوتا مارتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ سردار صاحب کسی بات پر غصہ کیا اور ملازم کے سر پر جوتا جڑ دیا۔ ہماری ثقافت میں دولہہ کا جوتا چرایا جاتا اور یہ ایسی چوری ہے کہ جس پر جوتا چرانے والی یا والے کو باقاعدہ دولہا پیسے ادا کرتا ہے، یہ جرمانہ ہزاروں میں ہوتا ہے مگر تو یہاں دولہہ نے ملازم کو جوتا دے مارا۔ اس وائل پر لوگوں نے شدید ردعمل ظاہرکیا ہے غم کا احساس تک نہیں باقی رائیگانی سی ائیگانی ہے تلملاانے والے بہت معصوم ہیں اور سوشل میڈیا سے متاثر ہیں۔ وہ حقیقت حال سے یکسر بے خبر ہیں کہ سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں میں ملازم کو جوتا مارنا کوئی ایسی ا چھنبے کی بات نہیں۔ وہاں تو ملازمین کی جوتے کھاتے ساری عمر گزر جاتی ہے۔ یہ ان کا کلچر ہے بلکہ وہ ملازم کو جوتے بھی خود نہیں مارتے۔ سردار، چودھری یا جاگیردار صرف آرڈر کرتا ہے اور اس کیخدمت گار مطلوبہ شخص کو لٹا کر اس کی پیٹھ پر جوتے برساتے ہیں۔ ویسے کبھی کبھی لگتا ہے کہ جوتا شاید صرف مارنے کے لیے ہوتا ہے۔ اب دیکھتے نہیں کہ بش تک کو جوتا مار دیا گیا۔ اب تو جوتا کلب میں کتنے ہی لوگ آ چکے ہیں۔ اس جوتے کا حوالہ تو اب انتہائی شریف النفس شاہد خاقان عباسی تک بھی بن چکے ہیں۔ جوتے تو بے چارے شاہد خاقان عباسی کو بھی اتارنا پڑے تھے، مگر یہ سکیورٹی کا مسئلہ تھا یا مسلمانوں سے تعصب کا۔ خیر ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا: معروف محقق و نقاد محمود شیرانی زبان دان تھے۔ وہ ایک جوتے کی دکان پر جوتا خریدنے گئے۔ سیلز مین بھی زبان دان نکلا۔ حضرت شیرانی جوتے دیکھتے جاتے مگر پسند نہیں آ رہا تھا۔ سیلز مین جھلا گیا اور بولا ’’حضور! اتنے جوتے پڑے ہیں مگر آپ کو پسند ایک بھی نہیں آیا‘‘ استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔ شیرانی صاحب نے جو جوتا پہن رکھا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے’’اب اتاروں جوتا‘‘ یہی ٹھیک رہے گا’’لگتا ہے کہ جوتے کا استعاراتی استعمال جاری رہے گا، اس کا عمل دخل کم نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے ناں حکومت کے مبصرین پی ڈی ایم کے حوالے سے اکثر یہی کہتے پائے گئے کہ ان کے مابین جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ گویا جوتا محاورے میں بھی خوب چلتا ہے۔ ویسے تو جوتے کا تذکرہ عظیم مقام پر بھی ہے کہ ’’موسیٰ اس مقد س وادی میں جوتے اتار کر آئو‘‘ یہ تو ایسے ہی بر سبیل تذکرہ بات آ گئی۔ جوتے پر تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ اصل میں ہم تو مزاج کے حوالے سے بات کر رہے تھے کہ کسی کی سرعام تضحیک غلط ہے وہ سردار ذوالفقار دولہہ کا ملازم ہی کیوں نہ ہو، عزت نفس تو سب کی ہے۔ ان جوتوں کا استعمال صرف تھانے ہی میں جائز ہے کہ وہاں دس نمبر سے بھی بڑا سپیشل جوتا ہوتا ہے۔ یہ جوتا مگر عام چوروں کے لیے ہے۔ بڑے اور سیاسی چوروں کے لیے نہیں کہ ان کی ایما پر تو جوتے مارنے والے ملازمت پاتے ہیں۔ سب سیاستدانوں اور بڑے لوگوں کو یہ استثنیٰ حاصل ہے۔ ابھی شہباز شریف رہا ہوئے تو بیانات پڑھ کر بڑا لطف آیا۔ آپا فردوس عاشق اعوان فرمانے لگیں کہ ’’وہ عمر کا فائدہ اٹھا گئے کہ ستر برس کے ہو گئے ہیں‘‘۔ کسی نے بیان داغا کہ شہباز جیل سے نکلے اور اب ش ن لیگ سے بھی نکلے گا۔ ان کے اثاثے بھی زیر بحث ہیں کہ جو برق رفتاری سے بڑھے ہیں مگر مجھے ایک شعر یاد آتا گیا: رند بخشے گئے قیامت کو شیخ کہتا رہا حساب حساب ویسے کیسی مزے کی بات ہے کہ سیاست دان چور، ڈاکو یا لٹیرا ہو ہی نہیں سکتا کہ جب بھی وہ پکڑا جاتا ہے تو تواتر کے ساتھ اس کے ہمنوا کہتے ہیں کہ یہ سیاسی مقدمہ ہے۔ دل میں آیا کہ ہر سیاستدان کی مناسبت سے اس پر بننے والا مقدمہ سیاسی ہی کہلائے گا۔ گو ’’سیاسی‘‘ تو اسم صفت ہے۔ گویا سچ مچ کے چور پر سیاسی مقدمہ نہیں ہو سکتا۔ یا پھر وہ چور اور ڈاکو سیاست میں آ جائے۔ کہیں سچ مچ میں ایسے ہی تو نہیں، فیس سیونگ تو ہے۔ اب ایسی ہی صوترحال جہانگیر ترین کی ہے کہ آپ ان پر کچھ ثابت کر کے دکھائیں ان کے ساتھ چالیس کے قریب ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں۔ ایسے ہی مجھے انتظار حسین یاد آ گئے کہ ایک مرتبہ ریاض شاہد کے بھائی نے انتظار صاحب سے پوچھا تھا کہ ان کی ان کے بھائی ریاض شاہد کے بارے میں کیا رائے ہے! انتظار حسین نے کہا ’’جس کے چھ سات بھائی تنومندجوان ہوں وہ بھلا چھوٹا ادیب کیسے ہو سکتا ہے! امین گنڈا پوری کا اس حوالے سے بیان دلچسپ تھا کہ عمران اور جہانگیر ترین کے مذاکرات نقصان دہ ہونگے۔ ’’ہوئے تو دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟‘‘۔ ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی حالات ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب کورونا ہی کو دیکھ لیں کہ اس نے جہاں لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے وہاں زبان و بیان پر بھی اثرانداز ہوا ہے۔ ابھی ایک سیاستدان کا بیان پڑھ رہا تھا کہ ’’ن لیگ کی سیاست ونٹی لیٹر پر پہنچ گئی‘‘۔ وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ اب اسے شہباز شریف کی آکسیجن بھی نہیں بچاسکتی۔ ویسے یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو کسی ماسک میں چھپا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حالات و واقعات واقعتاً اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثلاً کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھا جاتا بلکہ ضرورت خیال کیا جاتا ہے۔ آخری بات یہ کہ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہونگے۔ آپ سوچ لیں کہ ماسک کی پابندی کروانے کے لیے فوج طلب کرنا پڑی اور افسوس اس بات کا کہ ہم نے ماسک ناک اور منہ پر پھر بھی نہیں چڑھانا بلکہ گلے میں لٹکائے رکھنا ہے۔ گویا ہم اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ یہی سب میں شامل ہوں مگر یقین مانیے میں نے تو ماسک پہننا شروع کر دیا ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: خود کو زندہ سمجھ رہے ہیں ہم ہائے کس درجہ خوش گمانی ہے