سیاست ممکنات کو ناممکن اور ناممکن کو ممکن بنانے کے کھیل کانام ہے۔ بہت بار بظاہر مشکل نظر آنے والے کام بڑی سہولت اور عمدگی سے سرانجام دئیے جاتے ہیں اور سامنے نظر آنے والے اہداف بعد میں آنکھ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کچھ حتمی یا فائنل نہیں۔ چیزیں بدلنے کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔ منصوبے بدل جاتے ، اہداف مختلف ہوجاتے ،طریقہ کار ایک سا نہیں رہتا۔ پرانے سیاست دان اسی لئے ایک مقولہ دہرایا کرتے تھے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور فقرہ بھی بولا جاتا ہے کہ سیاستدان کبھی مذاکرات اور گفتگو کا دروازہ بند نہیں کرتے۔حالات جو بھی ہوں، بات چیت چلتی رہتی ہے۔ عمران خان کی سیاست مگر مختلف رنگ کی ہے۔ خان صاحب نے ہمیشہ جارحانہ انداز کی سیاست کی ہے، مصلحت پسندانہ سیاست کے وہ قائل نہیں، آل آئوٹ وار پر چلے جاتے ہیں، سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ تخت یا تختے کا کھیل۔ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ اکثر بگڑی بھی سنور گئی اور غلطیاں کر کے بھی میدان سے آئوٹ نہیں ہوپائے۔ اگلے روز ایک دوست سے بات ہو رہی تھی، خان صاحب کے مداحین میں سے ہیں۔ بے اختیار بولے، عمران خان نے جیسی جارحانہ کرکٹ کھیلی، اسی انداز کی سیاست کرتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کے کئی انداز ہم نے خود دیکھے ہیں، جب وہ احتیاط کرنے کے بجائے انتہائی حد تک چلے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف احتجاجی تحریک میں کئی اہم لیڈر گرفتار ہوگئے تھے، عمران خان لیڈ کر رہے تھے۔ ان کے گھر پولیس نے ریڈکیا، مگر وہ کمال ہوشیاری سے دیوار پھلانگ کر بچ نکلے۔ پلان یہ بنا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں جلسہ کریں گے اور اس موقعہ پر ظاہر ہوجائیں گے۔ تب پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا طوطی بولتا تھا، جمعیت کی نوجوان قیادت کو نجانے کیا مسئلہ درپیش آیا یا انہوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ جمعیت نے کہا کہ ہم عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی نہیں آنے دیں گے۔حالانکہ ان دنوں جماعت اسلامی اور عمران خان کے درمیان گہرا تعلق تھا،اس معاملے پر جمعیت والے جماعت اسلامی کی بھی نہیں سن رہے تھے۔ عمران خان کسی طریقے سے پنجاب یونیورسٹی پہنچ گئے۔ رات کسی کے گھر گزاری اور صبح کو ایک جگہ پر طلبہ کے ہجوم میں ظاہر ہوگئے ۔جمعیت کو خبر مل گئی، انہوں نے عمران خان کو گھیر لیا، خاصی دھکم پیل ہوئی، عمران خان کو دھکیل کر ایک کمرے میں بند بھی کر دیا گیا، پولیس آ گئی اور عمران خان گرفتار ہوگئے۔ یہ واقعہ مگر اسلامی جمعیت طلبہ کے لئے نہایت تباہ کن ثابت ہوا۔ جمعیت کے خلاف بے شمار کالم لکھے گئے، سخت ترین تنقید کا اس طلبہ تنظیم نے سامنا کیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا زوال اسی واقعے سے شروع ہوگیا تھا۔ ادھرعمران خان ہیرو بن گئے، اپنی زندگی کی پہلی اور اب تک کی آخری جیل یاترا پر گئے۔انہیں ڈی جی خان جیل میں بند کیا گیا، چھ سات دن کے بعد ضمانت ہوگئی۔ برادرم اعجاز چودھری تحریک انصاف کے تب کے دنوں کے ساتھی ہیں۔ انہی دنوں وہ ہمارے تھنکرز فورم کونسل آف نیشنل افئیرز (CNA)میں آئے تو کہنے لگے،’’ میرا جمعیت سے گہرا تعلق رہا ہے، ان کے مائنڈ سیٹ کو جانتا ہوں۔ میں نے عمران خان کو بتایا کہ اگر جمعیت اعتراض کر رہی ہے تو پھر وہ جماعت اسلامی کے کہنے پر بھی نہیں مانیں گے، عمران خان نے مگر اپنا منصوبہ تبدیل نہیں کیا اور یہی ایک لیڈر کا ویژن ہوتا ہے، وہ موقعہ کو اپنے حق میں استعمال کر لیتا ہے۔ ‘‘ چار سال بعد ایسا ہی ایک اور واقعہ تیس اکتوبر کو مینار پاکستان میں تحریک انصاف کا جلسہ تھا۔ محترم حفیظ اللہ نیازی تب عمران خان کے دست راست تھے۔ انہوں نے ہمارے اسی فورم میں بتایا کہ پارٹی کے لوگ چاہتے تھے کہ وہ جلسہ موچی دروازہ میں ہوجائے، جہاں دس پندرہ ہزار لوگ بھی پنڈال بھرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں انتظامیہ نے دانستہ عمران خان کو ڈی گریس کرنے کے لئے مینارپاکستان گرائونڈ کی اجازت دی تھی کہ اسے بھرنا ناممکنات میں سے تھا۔عمران خان نے مینار پاکستان جلسہ کا چیلنج قبول کیا۔ انگریزی محاورے کے مطابق اس دن جو ہوا وہ تاریخ کا حیران کن واقعہ ہے۔ عمران اس دن بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ ہر بار یہ رسک لینا اور سب دائو پر لگا دینا کام نہیں دیتا۔ دو ہزار چودہ میں عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمراہ اسلام آباد پر چڑھائی کی، وہ وہاں دھرنا دینے کی نیت سے گئے۔ انہی دنوںتحریک انصاف کے حامی چند صحافی دوستوں کے ساتھ ایک کھانے میں شریک ہوا۔ ہمارے انصافین دوست بڑے پرجوش تھے، عمران خان کی کامیابی انہیں سامنے نظر آ رہی تھی، انہیں لگتا تھا کہ نواز شریف حکومت گر جائے گی۔ میں نے وہاں سوال کیا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ عمران خان کو حاصل ہے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ سیاسی خودکشی ہے ، کیونکہ آج تک کوئی بھی لانگ مارچ مقتدر حلقوں کی سپورٹ کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس سوال کا جواب معنی خیز مسکراہٹ اور شرارتی نظروں کے تبادلہ سے ملا۔ یار لوگوں کا خیال تھا کہ امپائر کی انگلی عمران خان کے حق میں ہے۔ ایسا تھا یا نہیں تھا ، یا درمیانہ معاملہ تھا، مگر عملی طور پر عمران خان کا دھرنا ناکام ہوا اورکئی ماہ بعد ایک المناک سانحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بمشکل فیس سیونگ کی۔ نواز شریف حکومت کے اسی دور میں ایک اور بڑی غلطی عمران خان نے جوڈیشل کمیشن پر رضامند ہو کر کی۔ لکھ کر دے دیا کہ نتیجہ تسلیم کریں گے۔ انہیں مشورہ دیا گیا تھاکہ عدالت سے دور رہیں اور سیاسی ایشوکو زندہ رکھیں، جوڈیشل کمیشن میں یہ ختم ہوجائے گا۔ عمران خان تب پرامید تھے ، مگر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔ تب عمران خان کی سیاست کو شدید دھچکا لگا۔ درحقیقت ان کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اب پشاور بیٹھیں گے اور کے پی حکومت کی گورننس بہتر کریں گے۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی کہ بین الاقوامی سطح پر پانامہ سکینڈل سامنے آیا، جس میں شریف خاندان پھنس گیا، عمران خان کی واپسی ہوئی اور وہ پھر سے نواز شریف حکومت پر حملہ آور ہوئے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یقینی طور سے 2018ء کا الیکشن وہ گنوا چکے تھے۔ حالیہ لانگ مارچ بھی ایسا ہی میک آر بریک (تخت یا تختہ)معاملہ ہے۔ خان صاحب ہمیشہ کی طرح اپنا سب کچھ اس میں جھونک چکے ہیں۔ واپسی کا راستہ آسان نہیں۔ وہ اس قدر ہائیپ پیدا کر چکے ہیں کہ اب انہیں ہر حال میں اسلام آباد پہنچ کر طاقت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ خان صاحب پچیس مئی کو ایک بڑی سیاسی غلطی بھگت چکے ہیں۔ تب مناسب تیاری اور منصوبہ بندی کئے بغیر انہوں نے لانگ مارچ کیا، اسلام آباد پہنچ گئے، مگر مختصر تقریر کے بعد مارچ ختم کرنا پڑا۔ اب پانچ ماہ بعد وہ پھر سے لانگ مارچ کی انتہائی صورت میں چلے گئے۔ پچھلے چار پانچ دنوں سے وہ لانگ مارچ میں ہیں۔شہر شہر گھومتے اپنے مارچ کو طویل کرتے جار ہے ہیں۔آخر کب تک ؟ انہیں پنڈی پہنچ کر اپنی تمام تر طاقت مجتمع کر کے اسلام آباد میں داخل ہونے کا بھاری پتھر اٹھانا ہی ہے۔ اسلام آباد میں داخل ہو کر وہ ایک جلسہ کر کے پچیس مئی کی طرح منتشر ہوجاتے ہیں یا پھر دھرنا دیں گے؟اگر دھرنا دیا تو اسے کتنا طول کھینچیں گے ؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں، اصل منصوبہ اس بار خان صاحب نے اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ہر آپشن مگر خطرات سے پر ہے۔ سوال وہی ہے کہ اگر خان صاحب کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو وہ کیا کریں گے؟ اگر پسپا ہوئے تو ان کے مخالفین اسے سیاسی شکست گردانیں گے، ان کے خلاف بے تہاشا پروپیگنڈہ ہوگا۔ اگرعمران ڈٹ جاتے ہیں تب ٹکرائو یقینی ہے۔ ٹکرائوخطرناک ثابت ہوسکتا ہے، عوام کو نقصان پہنچنے کی صورت میں لیڈر پر ذمہ داری عائد ہوگی۔حکمران اتحاد خاص کر میاں نواز شریف طے کر چکے ہیں کہ کسی بھی صورت عمران خان کا مطالبہ نہ مانا جائے، وہ اہم ترین پوسٹ پر تقر ر کو آخری دن تک التوا میں رکھیں گے اور اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ عمران کو فیس سیونگ نہ دی جائے ۔ پی ڈی ایم کی منصوبہ بندی یہی ہے کہ خان کو تھکایا جائے اور مسلسل سیاسی ناکامی کا تاثر مستحکم کیا جائے۔ ملین ڈالر سوال مگر یہ ہے کہ ایک مقبول لیڈر جس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے، نوجوانوں میں وہ زبردست اثر رکھتا ہے، جب وہ فرسٹریٹ ہوگا، اسے دیوار سے لگایا جائے ، سیف ایگزٹ نہ ملے تو پھر معاملہ کسی تباہ کن نہج پر بھی جا سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ادارے نرم مداخلت کریں اور درمیانی راستہ نکالا جائے۔ حکومت کی بھی ہزیمت نہ ہو اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کو بھی فیس سیونگ مل جائے ۔ عدلیہ ہی مداخلت کرلے۔اداروں کا اصل کام بحران پیدا نہ ہونے دینا ہے۔ملک وقوم کو مستحکم رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔امید ہے کہ ٹکرائو اور تصادم نہیں ہونے دیا جائے گا۔حالات ایسے نہیں کہ ہم کسی بگ بینگ کے متحمل ہوسکیں۔