اَسّی کی دہائی میں ارضِ وطن کی طلبہ سیاست کا ایک معروف و معتبر نام، ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری کا ہے، جن کی سرگرمیوں اور جدو جہد کا مرکزی نقطہ تاجدارِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت کا بھرپور و برملا اظہار و ابلاغ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے غیر مشروط وفاداری اور غیر متزلزل وابستگی و دل بستگی تھا۔ نظریہء پاکستان اور اس خطہ ء پاک سے وفا اور ایفا، اْن کے مشن کا نمایا ں اور معتبر حوالہ تھا، جس کو لے کر وہ ارضِ وطن کے قریہ قریہ، کوچے کوچے اور نگر نگرمیں سرگرم و سرگرداں ہوئے۔ مادرِ وطن کی دانشگاہوں اور تعلیمی اداروں میں 1983ء اور 1989ء میں سٹوڈنٹس یونین کے الیکشنز میں"سیرت نوری، صورت نوری۔۔۔ ظفر نوری،ظفرنوری" کا نعرہ فلک بوس ہوا،اور خوب ہوا، ان کی طلبہ تنظیم پنجاب کی فاتح بن کر نمایاں ہوئی اور تعلیمی اداروں میں تشدّد اور انتہاپرستی کے اس عہد میں اَمن کی خوشبو اور محبت کی برکھا کی علامت بن گئی۔ان کا یہ نعرہ اس دورمیں پْراَمن معاشرے کی بقا اور استحکام کا ضامن بن کر طلوع ہوا: طلبہ کی بصیرت جاگی ہے اب اَمن کی خوشبو پھیلے گی اسی طرح تعلیمی امن سال کا اس سلوگن کیساتھ اہتمام و انعقاد کیا۔ چاروں صوبوں کی یکجہتی دین نبی کی بالادستی اور پھر: نفرتیں مٹائیں گے محبتیں بڑھائیں گے دفاعِ وطن اور استحکام پاکستان کے جذبے کو نسلِ نو کے رگ رگ اور ریشے ریشے میں اتارنے کے لیے اس تحریک کو لانچ کیا: سدا سلامت پاکستان تاقیامت پاکستان اس عہد میں سندھو دیش کے نعروں اور آزاد بلوچستان کے خواب دیکھنے والوں کو بھی انہوں نے خوب للکارا، اس محاذ پر اپنی طلبہ برادری کو مستعد کیا: سازش ہے ناہنجاروں کی ان جھوٹ کے ٹھیکیداروں کی لْٹ جائے آن بہاروں کی یہ سازش کیا کھل کھیلے گی طلبہ کی بصیرت جاگی ہے اب امن کی خوشبو پھیلے گی ڈاکٹر ظفر اقبال نوری بنیادی طور پر میڈیکل کے سٹوڈنٹ اور راولپنڈی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم اور مفسر قرآن پیر سیّد ریاض حسین شاہ کے زیر تربیت تھے۔ صاحبِ فکر وفن اور اہل درد و فقر۔۔یکِ از وابستگانِ درگاہ ِ حضرت داتا گنج بخش۔۔۔نسل ِ نو کی فلاح و کامرانی کے لیے" صْفّہ اکیڈمی" تشکیل دی، تاکہ وطنِ عزیز میں رواداری، انسان دوستی، محبت آمیزی، بھائی چارے اور بالخصوص عشقِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داعیوں اور جذبوں کو مضبوط و مستحکم اور خاص کر نسلِ نو میں تزکیہ و طہارت، امانت و صداقت کے اوصاف و کمالات کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ داتا در بار کے قدموں میں، حزب الاحناف سے مستعارشدہ عمارت میں قائم، صْفّہ اکیڈمی میں کتنے ہی شب و روز ان پْر نور صحبتوں میں صَرف اور آخری شب کی اَن گنت ساعتیں حضور فیضِ عالم کی بارگاہ میں میسر ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ میں تبلیغ و ترویج ِ دین کے لیے پڑھی لکھی جواں سال شخصیات کی ضرورت محسوس ہوئی، تو اپنے شیخ کی اجازت و استعانت سے امریکہ منتقل ہوگئے، جہاں ورجینیا میں مرجع خلائق ھوئے۔ ورجینیا، جسکو محبت کی سرزمین کہا جاتا ہے، کے علاقے آکوقوان(Occoquan)میں ایک عظیم الشان علمی اور دینی مرکز تشکیل دیکر وہاں کے مسلمانوں کی فکری، علمی اور اعتقادی آبیاری کا اہتمام کیا۔ دریائے پٹامک(Potomac) کے کنارے اس خوبصورت اور دیومالائی بستی میں، یہ عظیم اسلامک سنٹر اور خوبصورت اور خوش رنگ و خوش رعنا’’مسجد الحسین‘‘ مسلم کمیونٹی کے ایمان و ایقان کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انٹرنیشنل پیس مشن کے سربراہ کے طور پر اس سنٹر کو اتحادِ امت کی علامت، انسانیت کے لیے رشد و ہدایت اور بین المذاہب مکالمے کے مرکز کے طور پر بھی معروف و معتبر کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر تنظیمی اور تحریکی شخصیت ہیں، اور میرے خیال میں ہر صوفی کسی نہ کسی سطح پر سوسائٹی کا نبض شناس اور ایثار ووفا کا مرقع ہوتا ہے، حضر ت اقبال نے اِسی کو "خوئے دِل نوازی"سے تعبیر کیا اور اسی سے وہ شخصیت تخلیق اور ترکیب پاتی ہے، جس سے ماحول اور معاشرہ مسخر ہوتا اور نئے رجحانات اور ٹرینڈز جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے امریکہ کی جدید تہذیب سے آراستہ فضاؤں میں دین و تصوف اور فکر و فن کا ایسا مرکز آباد کیا، جہاں صرف پاکستان یا ساؤتھ ایشین مسلم ہی نہیں، بلکہ دیگر مذاہب و ادیان کی لیڈر شپ بھی مختلف اجتماعات اور کانفرنسز میں بصد شوق شریک ہوئی۔ گزشتہ ستمبر میں منعقدہ" پیس کانفرنس "کے موقع پر ورجینیا کے اس متعلقہ ٹائون کا میئر مسٹر ارنی جو شاید اس کانفرنس میں چند لمحوں کی رسمی شمولیت کے لیے حاضر ہو ا، مگر لمحوں نہیں، گھنٹوں شریک رہ کر اس نے اعتراف کیا کہ یہ وارفتگی، وابستگی اورکمٹمنٹ جو یہاں دیکھنے کو میسر آئی،اب مجھے کسی چرچ، کلیسا اور سینی گاگ میں نظر نہیں آتی۔ اب ہمارے پادری مقامی کرسچین آبادی کی اپنے دین سے دوری اور مذہب سے برگشتگی پر آزردہ اور افسردہ رہتے ہیں اور پہروں انتظار کرتے ہیں کہ شاید ان کے معبدوں کی بھی رونق افزائی ہو گی۔ امریکی سوسائٹی کی ضرورت کے پیش نظر دعوت و تبلیغ اور وعظ و ارشاد کے ساتھ، ڈاکٹر صاحب۔۔۔بہت سے تخلیقی، تبلیغی، تنظیمی اور تربیتی پراجیکٹس لانچ کرنے اور پھر اپنے طبعی اور فکری ذوق کی تسکین کے لیے شعرو سخن اور تصّوف و طریقت کی بزم بھی آراستہ رکھتے ہیں۔ حضرت داتاگنج بخشؒ سے اپنی قدیمی نیاز مندی اور عقیدت کیشی کے سبب کشف المحجوب کی تسہیل پر گراں قدر علمی کام کا بیڑا اْٹھا رکھا ہے۔اس کے ساتھ مرزا غالب کی زمینوں پر کہی ہوئی نعتوں کا مجموعہ " ثنائے خوا جہ ‘‘پاکیزہ جذبوں اور دینی و ولوں کوجِلا دینے کے لیے منصہ شہود پہ ہے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب ہمارے شعر و ادب کا گراں قدر فکری اور تہذیبی اثاثہ ہیں، غالب کو اگرچہ اردو زبان کا باقاعدہ نعت گو شاعر نہیں سمجھا گیا تاہم اردو ادب نے غالب کی زمینوں میں نعت گوئی کو ہمیشہ معتبر جان کر اس شعبے کو ثمر با رکرنے کی سعی مختلف ادوار میں کی، جن میں ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری یقینا ایک نمایاں اور معتبر شخصیت ہیں۔جس پر ان کو صد مبارکباد۔