سمگلنگ کے خلاف اقدامات کیے گئے تو معیشت کچھ سانس لینے لگ گئی اور غیر قانونی منی چینچرز کے خلاف کارروائی ہوئی تو روپیہ سنبھلنے لگا۔ روپے کی قدر میں کچھ استحکام آیا تو پٹرولیم مصنوعات میں کسی حد تک کمی ہو گئی۔ ہماری ڈگمگاتی معاشی صورت حال میں یہ اقدامات ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور امید کی کرن ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات ایک مستقل ریاستی پالیسی کی شکل اختیار کر سکیں گے اور کیا اس جیسے مزید اقدامات ایک مربوط معاشی لائحہ عمل میں ڈھل سکیں گے ؟ روپیہ جس کھائی میں جا گرا تھا اور ڈالر جس طرح اوپر جا رہا تھا ، ایک پریشان کن صورت حال تھی۔ ایسے میں اسے کسی قدر سنبھال لینا،کوئی معمولی واقعہ نہیں۔اس کی ایک علامتی اہمیت بھی ہے اور اس نے وہ نفسیاتی گرہ کھول دی ہے جس نے قوم کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل رکھا تھا۔ امید کا ایک روزن کھلا ہے کہ درست سمت میں اقدامات کیے جائیں تو صورت حال اب بھی سنبھل سکتی ہے۔ لیکن سوال وہی ہے ، یہ اقدامات وقتی اور اضطراری ہیں یا یہ کسی مربوط معاشی حکمت عملی میں ڈھل سکیں گے۔ تسلسل کا فقدان،من حیث القوم، ہمارا دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔کوئی طوفان ہمیں دبوچ لے توہم ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں اور جیسے ہی وہ طوفان کچھ تھمتا سا نظر آئے ، ہم بھی مطمئن ہو کر ساحلوں کی ریت پر دھوپ تاپنے لگتے ہیں ۔ پالیسی کی کامیابی کے لیے مگر تسلسل ضروری ہے۔ ایک چیز طے کر لی جائے اور پھر طویل المدتی منصوبے سے اس پر عمل کیا جائے تب جا کر اس سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو قوموں کی زندگی بدل سکتے ہیں۔ اچھی سے اچھی پالیسی بھی اگر تسلسل کے ساتھ بروئے کار نہ لائی جائے تو اس سے مکمل نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ سمگلنگ اس مہینے یااس سال تو شروع نہیں ہوئی۔یہ تو عشروں کا ایک سلسلہ ہے۔ کرنسی کا ناجائز کاروبار کرنے والے بھی سالوں سے یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ چھپ چھپا کر بھی نہیں کر رہے بلکہ اعلانیہ کر رہے ہیں ، بازاروں میں ، سب کے سامنے۔ سوال یہ ہے کہ آج تک اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ جواب بہت سارے ہیں لیکن اس موضوع سے منسلک ایک جواب یہ بھی ہے کہ اب تک معیشت کی گاڑی ادھر ادھر کے سہاروں سے چلی جا رہی تھی، اس لیے سب مزے میں تھے ا ور اب جب وہ سہارے ختم ہوئے تو ہم نے ہاتھ پائوں مارے اور اپنا گھر سیدھا کرنا شروع کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب تک معاشی بحران نے ہمیں لپیٹ میں نہ لیا تب تک ہم نے سمگلنگ اور کرنسی کے ناجائز کاروبار کو کیوں گوارا کیے رکھا؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا کل کو معیشت تھوڑی سی سنبھلی تو ہم اس تازہ پالیسی کو جاری رکھ سکیں گے یا ایک بار پھر معاملات پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہو جائیں گے۔ سمگلنگ روکنے کے لیے ہمیں فقہ کے اصول ’سد الزرائع‘ کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غلط کام کو روکنے کے لیے وہ ذرائع بھی روک دیے جائیں جو اس کام میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔جب ذرائع ہی دستیاب نہیں ہوں گے تو وہ غلط کام ہو ہی نہیں سکے گا۔ سوال گویا یہ ہے کہ سمگلنگ اور کرنسی کے ناجائز کاروبار کے ذرائع کیا ہیںا ور ان پر سد الزرائع کا اصول لاگو ہو گا تو اس کی عملی شکل کیا ہو گی۔ وزیر داخلہ صاحب نے قوم کو یہ تو بتایا کہ سمگلنگ اونٹوں کے ذریعے نہیں ہوتی لیکن یہ بات انہوں نے نہیں بتائی کہ سمگلنگ اونٹوں سے نہیں ہوتی تو پھر کیسے ہوتی ہے، اور اس میں کون کون ملوث ہے۔ اگر یہ ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے تو کیا ٹرک جنات چلا رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو نظر ہی نہیں آ تے؟ کیا یہ ٹرک سڑکوں پر چلنے کی بجائے ہوا میں اڑتے ہوئے آتے ہیں کہ کہیں انہیں روکا نہیں جاتا؟ سمگلنگ کے کچھ معلوم روٹس ہوں گے ، یہ روٹس اب تک کیسے کام کرتے رہے؟ سمگلنگ کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ یہ ساری بات سامنے آ جائے کہ سمگلنگ ہوتی کیسے ہے تا کہ اس کی روک تھام کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جا سکے۔ اس نکتے پر کام کر تے ہوئے پالیسی سازوں کو سد الزرائع یعنی Blocking of means کے اصول پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ بوری میں جب تک سوراخ رہیں گے ، ہر اچھی سے اچھی پالیسی ان سوراخوں سے گر جایا کرے گی۔کوئی بھی پالیسی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے گی۔ یہی معاملہ پاکستان میں ناجائز طور پر مقیم غیر ملکیوں کا ہے۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ان میں سے بعض کو پاکستان کے قومی شناختی کارڈ کیسے ملے؟ یہ کارڈ کتنے میں جاری ہوئے ، کہاں کہاں سے ہوئے اور کیوں ہوئے؟ جب تک اس خامی کا تعین نہ ہو اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ ہو تب تک مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ آپ آج غیر ملکیوں کو ملک سے نکال بھی دیں تو یہ کل پھر واپس آ جائیں گے۔ سسٹم کی خامیاں انہیں خوش آمدید کہیںگی۔ پاکستان میں ناجائز طور پر مقیم باشندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دنیا بھر میں اس کی کوئی مثال نہیں،ان کو یہاں سے نکال کر واپس ان کے ممالک میں بھیجنا اچھی بات ہے لیکن ساتھ ہی اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ یہ لوگ یہاں تک آ کیسے گئے؟انہیں بارڈر کراس کیوں کرنے دیا گیا؟ یہ بغیر کاغذات کے لاکھوں کی تعداد میں کیسے پاکستان آ گئے؟ یہ راستہ اور طریقہ کار اگر مسدود نہ ہوا تو یہ آج نکالے جائیں گے ا ور کل واپس آ جائیں گے۔جب تک ذرائع مسدود نہیں ہوں گے یعنی سد الزرائع کی حکمت پر عمل نہیں ہو گا یہ سارا سفر دائروں کا سفر بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ا س حوالے سے حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ ہماری مصلحتوں کا یہ عالم ہے کہ ملک میں سوات اور سابق فاٹا جیسے علاقوں میں اس وقت بھی چار لاکھ سے زیادہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں باقاعدہ حکومتی اجازت سے دوڑتی پھر رہی ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ ملاکنڈ کے لیے ٹیکس کی چھوٹ جون2023 میں ختم ہوئی تو اس میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی۔جو گاڑی پنجاب کے شہروں میں ایک کروڑ کی ملتی ہے وہ یہاں آٹھ دس گنا سستی قیمت میں دستیاب ہوتی ہے اور سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہے۔ سمگلنگ نے پاکستانی معیشت کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اگر اس سارے بندوبست کے خلاف کریک ڈائون شروع ہو ہی گیا ہے توضروری ہے کہ یہ ایک ہمہ جہت اور مستقل بنیادوں پر قائم کیا گیا بندوبست ہو۔ ایسا نہ ہو کہ معاشی پریشانی کے دوران یہ ایک ہنگای اقدام ہو اور جیسے ہی معیشت کچھ بہتر ہونے لگے تو سارے مسائل دوبارہ سے سر اٹھانے لگیں اور تب تک ہم بھول بھی چکے ہوں کہ ہم نے سمگلنگ کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی۔