پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن کیا کبھی آپ نے سوچاکہ پاکستان میں زراعت کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیاہے؟ آئیے چند سادہ سے حوالوں سے اپنا نامہ اعمال دیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ سے ہی ’ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ‘ قسم کی کابینہ بنائی جاتی ہے ۔ کراچی سے خیبر تک جس جس کو نوازنا مقصود ہوتا ہے اسے کابینہ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ صاحبان یا حضرت صاحبان وزارت میں ایڈجسٹ نہ ہو سکیں تو صاحبزادگان کو یہ منصب عطا کر دیا جاتا ہے۔ اہل دربار میں چکوال کی ریوڑیوں کی طرح وزارتیں بانٹی جاتی ہیں۔ پھر بتایا جاتا ہے فلاں رجل رشید معیشت کا ماہر ہے تو فلاں نابغہ عصر آئی ٹی میں مہارت رکھتا ہے ، فلاں صاحبزادہ صاحب امور خارجہ کے ماہر ہیں تو فلاں اعلی حضرت ہائوسنگ کی وزارت سے اسلامی انقلاب لانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اس پورے طلسماتی افسانے میں کیا کبھی آپ نے سنا کہ فلاں صاحب کی مہارت کا میدان زراعت ہے اورہم چونکہ ایک زرعی ملک ہیں اس لیے ان صاحب کو وزارت دی گئی ہے؟ سیاسی رہنما ، اقتدار سے پہلے پہلے ، مشیروں کا ایک لشکر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ایک غیر سنجیدہ و اعظ مذہبی امور کا مشیر بنا لیا جاتا ہے ، ایک گویا امور خارجہ کا مشیر بنا لیا جاتا ہے ، مقدمات کی بیگار کی خاطر قانونی مشیر اور حتی کہ وزیر رکھ لیے جاتے ہیں ، مذہبی عصبیت کی آسودگی کے لیے وزارت مذہبی امور وغیرہ موجود ہے۔ حلقہ انتخاب تک سے محروم لوگوں کو پارلیمانی امور کی وزارت عطا کر دی جاتی ہے لیکن کیا کبھی آپ نے سنا کہ فلاں آدمی فلاں سیاسی جماعت یا فلاں سیاسی رہنما کا مشیر برائے زراعت ہے؟ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر دوسروں کی کردار کشی اور اپنے حصے کے سیاست د ان کی خوشامد کے لیے لشکر پالے جاتے ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ فلاں جماعت کا ’ زرعی ونگ ‘ ہے اور اس میں زرعی ماہرین بیٹھ کر ملکی زراعت کے حوالے سے رہنما اصول طے کر رہے ہیں تا کہ اگر کبھی ہماری جماعت یا ہمارے قائد محترم اقتدار میں آئیں تو ان اصولوں پر عمل کر کے زراعت میں بہتری لا سکیں۔ پاکستان میں ہر سال صدارتی ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ خدام ادب ، اپنے گروہی مشقتیوں اور قلیوں کو ہر شعبہ ہائے زندگی سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ دیے کیا جاتے ہیں ، بانٹے جاتے ہیں۔ ایسے ایسے لوگوں کو ایسے ایسے شعبوں میں ایوارڈ دے دیے جاتے ہیں کہ ایوارڈ کو زبان ملے تو وہ دہائی دینا شروع کر دے کہ مجھے کسی کباڑیے کے ہاتھ بیچ دو لیکن یہ ظلم نہ کرو۔ جس بے رحمی سے یہ ایوارڈ طفیلیوں میں بانٹے گئے ہیں اس بندر بانٹ نے ایوارڈ کی معنویت ہی ختم کر دی ہے۔ جن چند حقیقی مستحق شخصیات کو یہ ایوارڈ ملے ان کا تناسب آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ لیکن اس بندر بانٹ میں بھی زراعت کا شعبہ کہاں ہے؟ کتنے ایسے ماہرین ہیں جن کا تعلق زراعت سے ہو اور انہیںکوئی ایوارڈ ملا ہو؟ کوئی ایسی شخصیت جس نے بیجوں پر کوئی اعلی پائے کا کام کیا ہے ، پیداوار بڑھانے سے متعلق کوئی تحقیق کی ہو یا زراعت کے شعبے میں عمومی طور پر کسی نے کچھ کر دکھایا ہو اور اسے ایوارڈ کا مستحق سمجھا گیا ہو؟ کھیل کود تماشے اور اداکاری فن کاری اور گلوکاری ہی کا نام زندگی نہیں۔ تناسب نکال کر دیکھیے تو حیرت آپ سے لپٹ جائے گی کہ کیا یہ واقعی ایک زرعی ملک کا احوال ہے؟ پارلیمان کو دیکھ لیجیے جہاں کا ایک مبارک دن اس قوم کو اوسطا قریب چھ کروڑ میں پڑتا ہے۔ یہاں چھ کروڑ یومیہ چولہے میں ڈال کر جو بحثیں ہوتی ہیں ان کا معیار تو ہمارے سامنے ہی ہے کہ پہلے گھن آتی تھی اب خوف آتا ہے لیکن موضوعات کا قحط بھی ترجیحات کے افلاس کی کہانی سنا رہا ہوتا ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آج تک کبھی آپ نے پارلیمان میں زراعت کے حوالے سے ، زرعی امکانات کے حوالے سے اور شعبے میں امکانات کے ایک جہان کے بارے میں کوئی با معنی ، بامقصد اور سنجیدہ گفتگوسنی ہو؟ میڈیا کو دیکھ لیجیے، چوبیس گھنٹے سکرین کا روشن رہنا ایک ایسی مجبوری ہے جس نے سماج کی کمر لال اور ہری کر دی ہے۔ غیر معیاری موضوعات ، غیر معیاری گفتگو ، ریٹنگ کا ایک طوفان ہے اور معقولیت بیٹھی رو رہی ہے۔ تجزیہ کاری کی کل کہانی اب He said , she said تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ بولنا ہے اور بولتے رہنا ہے گر چہ مقصد کچھ نہ ہو ۔ ہر روزقریب ایک سو شو چلتا ہے ان چینلز پر لیکن کیا کبھی کسی کا موضوع زراعت بھی ہوا ہے؟ کبھی ایسا ہوا ہو کہ زراعت اور اس کے امکانات اور مسائل پر ڈھنگ سے اور سنجیدگی سے کہیں بات ہوئی ہو؟ ڈیجیٹل دور ہے اب برسات میں پریس ٹاک اگتی ہیں اور اشرافیہ سارا سال ٹراتی ہے۔ ایک نابغہ پریس کانفرنس کرنے آتا ہے اور درجن بھر حضرات کھیت میں غیر ضروری سنڈیوں کی طرح دائیں بائیں نمودار ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا ان اکابرین بقلم خود اکابرین نے ان پریس ٹاکس میں کبھی زراعت کے حوالے سے بھی کوئی بات کی ہے۔ کبھی کسی نے بتایا ہو کہ اس سال زراعت کے شعبے میں یہ امکانات ہیں اور یہ خطرات ہیں؟ کسی نے حکومت سے کوئی مطالبہ کیا ہو کہ زرعی معیشت کو فلاں فلاں خدشات لاحق ہو چکے ہیں؟ اخبارات میں ایڈیشن پر ایڈیشن چھپتے ہیں، کس اداکارہ نے کب کیسے اور کس سے مسکرا کر بات کی اور اس بات کا دورانیہ کتنا تھا ، اس پر بھی تحقیقی فیچر شائع ہوتے ہیں ۔ کس شادی میں دلہن کا لہنگا کتنے لاکھ کا تھا اور اس کے لباس میں کتنے موتی جڑے ہوئے تھے اس پر بریکنگ نیوز اور اشاعت خصوصی کا اہتمام ہوتا ہے لیکن کبھی آپ نے زراعت کے حوالے سے بھی ایسا ہی کوئی اہتمام اور ایسی ہی کوئی حساسیت دیکھی ہو تو بتا دیجیے۔ اب اگر نامہ اعمال یہ ہے تو پھر اس بات پر حیرت کیسی کہ گندم روس اور یوکرین سے منگوائی جا رہی ہے زرعی ملک ہے مگر اپنی خوراک میں بھی خود کفیل نہیں رہا۔ زرعی زمینیں روند کر ہاوسنگ سکیمیں بنائی جا رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ زراعت عملا ایک لاوارث شعبہ بن چکا ہے ۔ جس بے نیازی سے ہم نے زراعت کو نظر انداز کیا اور جس سفاکی سے ہم نے اپنے کسان کا استحصال کیا دنیا میں شاید ہی اس کی کہیں کوئی مثال ملتی ہو۔ کسان کی فصل تیار ہو تو سرکاری نرخ مقرر کر کے جبر ا اس سے فصل چھین لی جاتی ہے لیکن جب کسان کو سرکاری نرخ پر کھاد نہیں ملتی تو ضلعی انتظامیہ مزے سے لاتعلق ہو جاتی ہے۔ جی ہاں وہی انتظامیہ جس کے سترہ گریڈ کے افسر کو اسسٹنٹ کمشنر کہتے ہیں اور جسے بھنڈی توری اور ٹماٹر کی قیمتیں چیک کرنے کے فرائض کی بجا آوری کے لیے دیڑھ دو کروڑ روپے کی گاڑی دی جاتی ہے۔ ہے کوئی ہم سا؟ ہم جو ایک زرعی ملک ہیں۔