بولے تو لفظ باعث الزام ہو گئے ہم چپ رہے تو اور بھی بدنام ہو گئے تھی تندوتیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سر شام ہو گئے وقت سچ مچ بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ واقعتاً سال مہینے اور مہینے دنوں میں تبدل ہو چکے ہیں۔ غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی۔ گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی۔ شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی۔ وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا۔ یہ ایک حقیقت جو ہم سب محسوس کرتے ہیں۔ ایک ہچکی میں دوسری دنیا۔ سعد اتنی سی بات ساری ہے۔ کھمبے پر چڑھے شخص نے نہ جانے کیا سوچا ہوگا۔ بجلی تو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔ یہ کیا طریقہ ہے احتجاج کا کہ زندگی بہت قیمتی ہے۔ آپ کے لیے نہ سہی مگر وہ جو آپ سے امیدیں باندھ کے گھر بیٹھے ہیں اور خاص طور پر وہ ماں جو آپ کا راستہ تکتی ہے۔ یہ کیا ہوا کہ کوئی کہاں سے چلے اور کہاں آگے دم دے جائے اور اس کے تین بیٹے یتیم ہو جائیں۔ اک حادثہ ہے کہ مذاق بنا ہوا ہے۔ کوئی یقین نہیں کرتا کہ بے یقینی ہم نے خود پھیلائی ہے۔ چلیے شکر ہے کہ مقدمہ تو درج ہوگیا۔ عمران پر حملے کی یہ ایف آئی آر پانچ دن بعد سپریم کورٹ کے کہنے پر درج ہوئی مگر متاثرین اب بھی اس کو کب مانیں گے۔ ہم نہ جانے کیوں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ہم تو سنتے تھے کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ سچ بولو کہ یہ یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ جہاں ہاتھ پائوں اور اعضا بولیں گے۔ اب تو بس سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے۔ جتنی زبانیں اتنے بیانات۔ آخر تفتیش سے پہلے ہی مجرم نے سب کچھ خودی بک دیا۔ لوگوں کے شک و شبہات غلط بھی نہیں کہ صدیوں کا غصہ جمع ہو چکا ہے۔ صدیوں تو میں نے محاورتاً کہہ دیا وگرنہ جب سے پاکستان بنا ہے یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ طاقت ہی حکمران کی چالاکی اور مکاری بلکہ عیاری حصہ دار بنی رہی۔ انصاف او رعدل کبھی اپنی جگہ نہ بنا سکا۔ جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت ہماری اساس بن گیا اور طاقت کو جواز مل گیا۔ بھٹو کو شعور تھا اور اس نے شعور دینے کی کوشش بھی کی مگر مصلحت آڑے آ گئی۔ مگر اس سے بھی پہلے فاطمہ جناح کا دور بھی کشمکش میں گزر گیا۔ اب اس سے آگے نہیں جائوں گا کہ قائداعظم کی ایمبولینس اور لیاقت علی خان کی شہادت پر بات جائے گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب تبدیلی کی بات سے ایک اور تبدیلی رونما ہونے جا رہی ہے مگر وہی کہ میں کیسے مان جائوں کہ وہ دور جا کے روئے۔ ویسے لاوا اچانک نہیں نکلتا یہ آتش فشاں ایسے ہی نہیں اگلتا۔ اب نئی نسل ان ایکشن ہے۔ وہ پڑھی لکھی بھی اور بے روزگار بھی ہے۔ وہ خرابی کی اصل وجہ بھی جانتی ہے کہ کما کون رہا ہے اور کھا کون رہا ہے۔ سب کے اپنے اپنے تحفظات ہیں۔ اب ایک سینیٹر کونج کی طرح کرلاتا پھرتا ہے مگر کوئی سننے کا نہیں۔ کہ اعلان کردیا گیا ہے کہ ادارہ اپنے سے وابستہ چھوٹے سے چھوٹے شخص کا بھی تحفظ کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ تحفظ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں وہ جو بے بس ہیں اور وہ جو لاچار ہیں اور مسائل سے دوچار ہیں کہاں جائیں گے؟ سوال تو یہ ہے کہ اگر ظلم ہوا ہے تو تحقیق ہونی چاہیے یا پھر آپ جواب دہی سے انکاری ہیں۔ پھر وہی حضرت علی کا قول کہ حکومت ظلم پر تو نہیں چل سکتی اور سب جانتے ہیں کہ حکومت کس کی ہے۔ حق اور سچ کو اپنا کتنا ہی دبالیں یہ اللہ کا اعلان ہے کہ حق غالب آ کر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے ۔ مسلمان ہونے کے ناتے آپ ظلم کے مٹنے کا انتظار کریں۔ اپنے ادارے کا تحفظ کوئی غیر فطری بات نہیں کہ جنگل میں بھینسیں تک یہ شعور رکھتی ہیں۔ شعور نہ سہی کم از کم اتنی سینس رکھتی ہیں کہ مل کر شیر پر حملہ کردیتی ہیں۔ ویسے بھی محاورہ میں بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوئی ہیں مگرمچھ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اندر سے سیاست دان بھی اسے ہی ہیں کہ آپس میں رشتے داریاں کرتے ہیں۔ سب ادارے اپنی اپنی جگہ درست ہیں کوئی حاکم تو تابع، کام بہرحال چل رہا ہے۔ اگر ادارہ نہیں تو عوام کا ادارہ نہیں۔ وہ سب شامل باجہ نظر آتے ہیں جس نے باتوں میں لگایا اس کے ساتھ چل دیئے۔ ہر وقت استعمال ہونے کے لیے تیار۔ میں باتیں چھوڑ کر صرف ایک مثال آپ کے سامنے رکھوں گا کہ پورا ملک اسی طرح چل رہا ہے اور چلایا جارہا ہے۔ مثال طور پر ایک کیس دیکھیں جو اب سب کو بھجوایا گیا ہے کہ ایک کمپنی نے ایک دن میں 850 کلومیٹر پائپ لائن بچھا کر 33 کروڑ جاری کروا لیے۔ پتہ چلا کہ وہ پائپ لائن ہی پاکستان میں موجود نہیں تھی۔ تفصیل آپ 92 نیوز میں دیکھ سکتے ہیں۔ سینٹ کمیٹی نے نیب کو خط لکھوا دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہاں کاغذوں میں سڑکیں بنتی آئی ہیں۔ پھر مزے کی بات یہ کہ کرپشن ثابت ہونے کے باوجود بھی ان حرام خوروں کو بحال کردیا جاتا ہے۔ ظاہر ان گندے لوگوں کے بغیر افسران کا رشوت کے بغیر جینا محال ہے۔ یہ پی ڈبلیو ڈی کا کیس اب ایک مذاق ہی ہے۔ دکھ تو اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہم جس شخص کو ڈید آنسٹ سمجھتے تھے وہ توشہ خان۔ کیس میں ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ خیال تو پھر قائداعظم کا آتا ہے ایسے عظیم لوگ کہاں سے لائیں کہ سب اچھا کہیں، جیسے آخری بات میری جو سراج الحق نے کہی کہ آئین کی بالادستی‘ الیکشن اصطلاحات اور غیر جانبدار اسٹیٹمنٹ پر ڈائیلاگ بہت ضروری ہے۔ ۔ فیض صاحب کا ایک شعر: ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا