سانسوں میں کوئی خوف بسا لگتا ہے ہر جسم مجھے سر سے جدا لگتا ہے مشکل میں ہوں میں اور ہوں خود سے الجھا ہونا مرا دیکھو تو سزا لگتا ہے کیا کیا جائے بات ہی کچھ ایسی ہے کہ ہے مضمر مرے اندر کوئی صورت خرابی کی۔تعمیر کے شوق میں نکلا ہوں اور تخریب برآمد ہوتی جا رہی ہے ڈر ہے کہ الٹ جائے نہ بستی ساری۔ ہر شخص یہاں ایک خدا لگتا ہے جوڑے جو وہ لوگوں کو تو کیسے جوڑے منصب ہی سے اپنے جو ہٹا لگتا ہے قصے بھی بہت ہیں تری باتیں بھی بہت لیکن وہی کہنا جو روا لگتا ہے۔سچ کوئی نہیں بول رہا آدھا سچ بھی نہیں بلکہ سکہ بند جھوٹ کہ چلن اسی کا ہے شیر آیا آیا صرف تلمیح یا قصہ نہیں بلکہ صداقت ہے سچ بولنے والا اجنبی یا احمق محسوس ہوتا ہے۔ کبھی خیال کرتا ہوں کہ کیا ہم آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ایسے ہی تھے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ہم ایک خواب دیکھ کر تعبیر بننے آئے تھے بلندیوں کا سفر تھا اڑان پہلی تھی میں ایک یقین میں رہا اور ایک دعا میں رہا کیا جذبہ تھا کیا شوق و ذوق تھا۔ قائد ہمارے سر پر تھے کوئی یقین کرے گا کہ عزم و ہمت کے پیکر نے اپنے نحیف جسم و جان کو کیسے کھینچا پھر جو کہا اور عمل کیا۔ رہنما نقش ٹھہرا وہ کیا لمحہ ہو گا جب آپ نے ڈانٹ کر کہا کہ یہ چائے وائے کس کے لئے، اسمبلی میں ممبران آئیں تو گھر سے چائے پی کر آئیں۔ ہائے ہائے میں قربان جائوں اپنے قائد کے دفتروں میں کیکر کے کانٹے پنوں کی جگہ استعمال ہوتے۔ یہ کفایت شعاری اوپر سے نیچے آئی کہ قائد کا فرمان تھا کہ ہم فضول خرچی کے متحمل نہیں ہو سکتے جب میں اپنے عہد کو دیکھتا ہوں عرق ندامت میں جہک جاتا ہوں کیا کچھ کھا پی گئے کیا کچھ بیچ بچا گئے اوپر سے شرمندگی کی رمق تک نہیں کبھی کبھی اپنا دوست اسماعیل عاطف یاد آتا ہے: کیا پوچھو گے کیا بتلائیں کیا سوچا کیا روگ ملے اونچی دیواروں کے پیچھے چھوٹے قد کے لوگ ملے آپ یقین کیجیے کہ آج میں تو اقبال پر لکھنے بیٹھا تھا کہ موقع بھی ہے دستور بھی ہے کہ اپنی عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کروں ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہماری قوم کے اس نابغہ فلاسفر اور شاعر کو ہم سے زیادہ ہمارے دشمن سمجھتے ہیں ہاں ایران مستثنیٰ ہے کہ ان کا انقلاب کلام اقبال کی اساس پر آیا وہ قوم تھی اس لئے شاعر ملت سے راہ پا گئی۔ حکومت نییوم اقبال کی چھٹی بحال کر دی کہ اب تعلیمی اداروں میں روایت جاری ہو سکے۔ : جیسے زمانہ کچھ بھی نہیں حال کے بغیر ایسے ہی اپنا حال ہے اقبال کے بغیر ایک بات ذھن نشین کر لیں کہ اقبال سخن اثاثہ سارے کا سارا تحرک کی فلاسفی میں گندھا ہوا ان کے ہاں جمود موت ہے ایک جہد مسلسل کے وہ قائل ہیں وہی کہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ یہ فلاسفی ان کی اپنی نہیں بلکہ قرات و سنت سے کشید کی ہوئی ہے کہ ایک تعمیر کا سودا اس کے سر میں تھا دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم ذرا دیکھیں اور سوچیں کہ سب تخریب کے سوا کیا کر رہے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن مرکز ہو کہ صوبے کیسے ہرکوئی ٹانگ کھینچ رہا ہے تو کوئی بازو مگر جسم تو وطن کا ہے پہلے ہی ہماری انائوں اور مفادات نے اسے دو ٹکڑے کر دیا باز ہم اب بھی نہیں آئے : تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی سوچتا ہوں کہ اقبال کے کون سے پہلو پہ لکھوں اور کس کو نظرانداز کروں: کس کس ادا پہ تیری بس واروں نہ اپنا دل تجھ پر ہے ختم خامشی تجھ پر سخن تمام ہم اگر باردگر سوچ لیں تو اقبال آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں کیسی کیسی شاعری انہوں نے چھوڑی ہے ابھی میں دو شعر دیکھ رہا تھا وہ اپنی قوم کو جھنجوڑتے ہیں اس کی خودی کو بیدار کرتے ہیں اور اسے اپنے آپ کو پہچاننے کی دعوت دیتے ہیں کہ ہر کوئی اپنی دریافت کرے: تْو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اْخْوّت کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا کیسا مشورہ ہے حضرت اقبال کا کہ اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا اس کے الٹ ہم نے کیا نفرتیں ہی نفرتیں بوئیں اور کانٹیں۔ برداشت معاشرہ ایک گہری خلیج کے باعث مٹ گیا بدتمیزی اور بدتہذیبی نے جگہ بنا لی گالی گلوچ کا کلچر انتہائی شرمناک لگتا ہے جیسے ہمارا کوئی سروکار قرآن اور صاحب قرآن سے نہیں رہا یکسر بعد ہی بعد اقتدار اور صرف اقتدار اور مذہب کا استعمال ہمارا حال تو یہ ہے کہ حرام کھا کھا کر بغیر سمجھے شعر پڑھتے ہیں کہ اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔ کیا ہمارے پرواز اور کیا ہماری موت کی خواہش۔ ہم بہت ڈھیٹ ہیں وہ جنہیں اقبال کا شاہین بنتا تھا وہ کچھ اور ہی بنے پھرتے ہیں۔ کانوں میں بندے پیچھے گت ہاتھ میں کڑا اور سگریٹ کے کش لگا کر سٹنگ پیتے ہوئے ! اللہ کی پناہ مگر میں بھی ان بچوں کے لئے دعا کہ انہیں کوئی باعمل اور مخلص رہنما مل جائے کہ: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں ٭٭٭٭٭