سپریم کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ کا فیصلہ کل شام سنایا گیا۔اس پر کل سے بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے سپریم کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ کو مختصر الفاظ میں سمجھ لیں۔ پارلیمنٹ کے پاس کردہ اس ایکٹ میں بنیادی ایشو یہ تھا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184-3 کے تحت ازخود نوٹس لے کر کیس کی کارروائی شروع کر دیتے ہیں، اس کے طریقہ کار کو ریگولرائز کیا جائے ۔ دراصل تب پی ڈی ایم حکومت کو خدشہ تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس عطا بندیال مختلف کیسز میں 184-3کے تحت ان کے خلاف فیصلے کر سکتے ہیں۔ شہبازشریف حکومت اس حوالے سے بند باندھنا چاہتی تھی۔ سابق چیف جسٹس عطابندیال پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ اپنی مرضی کے بعض بنچ بنا دیتے اور ان میں دو سینئر ترین ججوں قاضی فائز عیسیٰ اور سردار طارق مسعود کو شامل نہیں کرتے تھے۔پی ڈی ایم حکومت اور شہباز شریف وغیرہ کا خیال تھا کہ شائد قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود صاحب کو ان کے خلاف اہم بنچز میں شامل ہونا ان کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تین چار بنیادی چیزیں کی گئیں ۔ چیف جسٹس سے ایک سو چوراسی ذیلی شق تین کے تحت کیسز لینے اور بنچ بنانے کا اختیار لے کر تین سینئر موسٹ ججز کی کمیٹی کو دے دیا گیا۔ چیف جسٹس سمیت تین سینئر ترین جج ہی فیصلہ کریں گے کہ کون سا کیس 184-3کا ہے اور اسے اگر لیا جائے تو کون سا بنچ بنایا جائے ۔ یہ بھی تھا کہ آئینی امور میں کم از کم پانچ رکنی بنچ ہو۔ اس ایکٹ میں ایک بہت اہم شق 184-3کے تحت اپیل کرنے سے متعلق تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ سب سے بڑی عدالت ہے، اس کے فیصلے پر اپیل نہیں ہوسکتی۔ صرف نظرثانی کی درخواست ہوسکتی ہے اور نظرثانی کی درخواست کا سکوپ بہت محدود ہوتا ہے، اس میں زیادہ نکات ڈسکس نہیں ہوسکتے جبکہ اپیل کا معاملہ مختلف ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ایک سو چوراسی ،تین کے تحت کیسز کی اپیل ہوسکے گی اور اس کے لئے لارجر بنچ بنانا لازمی ہے۔ اپیل کے لئے خاص مدت بھی رکھی گئی، یعنی چیف جسٹس چاہے تب بھی وہ ان کیسز کی اپیل کو لٹکا نہیں سکتا، ایک معینہ مدت میں اس کا فیصلہ ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح یہ بھی تھا کہ ارجنٹ معاملات کی درخواست بھی معینہ مدت میں لگائی جائے گی۔ ایک نکتہ اس ایکٹ کے ماضی پر اطلاق کا بھی تھا۔ یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ ماضی میں 184-3کے تحت کئی بہت اہم کیسز کا فیصلہ ہوا ہے، جیسے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی سیاسی نااہلی۔ یہ کیسز تب براہ راست سپریم کورٹ میں چلے۔ اگر ایک سو چوراسی ، تین کے خلاف ماضی میں کئے گئے فیصلوں پر اپیل کاحق مل جاتا تو بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوسکتا تھا، جن میں شریف فیملی سرفہرست ہے۔ اس ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس عطا بندیال نے اس ایکٹ پر عملدرآمد روک دیا یعنی حکم امتناعی جاری کر دیا اور اس کیس کو آگے نہیں بڑھایا۔ قاضی فائز عیسیٰ اس پر احتجاج کرتے رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کئے گئے اس بل کا کوئی بھی فیصلہ کرنا ضروری ہے، یوں لٹکانا غلط ہے،۔اسی لئے وہ کئی ماہ تک کسی بھی بنچ کا حصہ نہیں بنتے رہے کیونکہ ان کے خیال میں چیف جسٹس اس ایکٹ کو معطل کر کے اپنے طور پر جو بنچز بنا رہے ہیں، وہ غلط ہیں۔ قاضی صاحب چیف جسٹس بنے تو انہوں نے فوری طور پر فل کورٹ بنا کر اس کیس کو سننا شروع کیا اور ایک بڑا قدم اسے براہ راست نشر کرنے کا اٹھایا۔ اس پر چار دن تک لمبی چوڑی کئی گھنٹوں پر محیط بحث ہوتی رہی۔ ججز میں اختلاف بھی سامنے آیا، وکلا کے ساتھ گاہے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ عام لوگوں نے بھی ججوں اور وکلا پر تبصرے کئے مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا، جسے سراہنا چاہیے۔ اس پورے کیس میں دو تین نکات پر بحث ہوتی رہی۔ سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے لئے قوانین بنانے کا حق حاصل ہے کیونکہ سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے اور پارلیمنٹ کی یہ مداخلت عدلیہ کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک ، شاہد وحید وغیرہ یہ نکتہ بار بار اٹھاتے رہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ وغیرہ پارلیمنٹ کے اختیار کی حمایت کرتے رہے۔ چیف جسٹس کا باربار یہ کہنا تھا کہ اس ایکٹ سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے اختیارات یعنی میرے اختیارات کم ہو رہے ہیں، مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ بہرحال مختلف دقیق آئینی ، قانونی نکات پر گھنٹوں بحثیں چلتی رہیں۔ بدھ کی شام فل کورٹ نے مختصر فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے کے تین حصے سمجھ لیجئے۔ بنیادی سوال پارلیمنٹ کے منظور کردہ’’ کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ ‘‘ کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا تھا۔ درخواستیں آئی تھیں کہ سپریم کورٹ اس ایکٹ کو ختم کر دے۔ فل کورٹ نے دس پانچ کی اکثریت سے ایکٹ برقراررکھا یعنی درخواستیں مسترد کر دیں۔ اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے پانچ ججز میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر اکبر نقوی ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔ اس فیصلے کا دوسرا حصہ 184-3کے کیسز میں اپیل کے حق سے متعلق تھا۔ سماعت کے دوران اس پر بہت بحث ہوئی کہ اگر اپیل کا حق مل گیا تو بہت مسئلے بنیں گے۔ ایسا ہر کیس پھر مکمل سماعت کے لئے اپیل میں جائے گا اور لارجر بنچ اس کی سماعت کرتا رہے گاوغیرہ وغیرہ۔ بہرحال فل کورٹ کے فیصلے میں اپیل کا حق برقرار رکھا گیا اور اس کے خلاف درخواستیں بھی مسترد کر دی گئی ہیں۔ تاہم اس بار دس پانچ کے بجائے نو ، چھ سے فیصلہ آیا ہے۔ اس بار جسٹس یحیی آفریدی نے جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر وغیرہ کو جوائن کیا۔ یوں اختلاف کرنے والے پانچ سے چھ ہوگئے ۔ فیصلہ البتہ اپیل کے حق میں ہوا۔ فیصلے کے تیسرے حصے میں دلچسپ معاملہ ہوا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین خان، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی یعنی سات ججز کا اقلیتی فیصلہ آیا اور آٹھ ججوں کی اکثریت نے اپیل کے حق کو ماضی پر اطلاق کرنے سے روک دیا۔ آٹھ سات سے فیصلہ آیا۔ یعنی اب اس ایکٹ کا ماضی پر کوئی اطلاق نہیں ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں نواز شریف، جہانگیر ترین وغیرہ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب سے جو بھی ایک سو چوراسی ، تین کا کیس ہوگا، اس میں اپیل کا حق ملے گا۔ ماضی میں جن کے خلاف فیصلے ہوچکے ، انہیں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ فل کورٹ کے فیصلے میں دس ججز کی اکثریت جودوسرے حصے میں نوہوگئی ، وہ تیسرے حصے میں سات رہ گئی ۔ اس بار دو ججز جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اظہر حسن رضوی نے جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس منیب اختر وغیرہ کو جوائن کیا اور یوں ان کی اکثریت ہوگئی یعنی آٹھ ۔ اس اعتبار سے سپریم کورٹ فل کورٹ کا یہ فیصلہ خاصا تکنیکی نوعیت کا ہے، اسے فوری سمجھنا شائد اتنا آسان نہ ہو۔ چیف جسٹس کا بنچ بنانے کا اختیار بہرحال محدود ہوا ہے اورشخصی آمریت کا اگر کوئی تصور کہیں پر تھا تو وہ اب ختم ہوجائے گا۔ چیف جسٹس کو مشاورت کے ساتھ بنچ بنانے ہوں گے اور اب امکان یہ ہے کہ سوموٹوکیسز کی تعداد بھی کم ہوجائے گی۔ 184-3کے تحت کوئی کیس جو سپریم کورٹ میں ڈائریکٹ چلے گا، اس میں اپیل کا حق بھی مل گیا اور اسے لارجر بنچ ہی سنے گا، یعنی یہ تاثر ختم ہوجائے گا کہ کسی فریق کو جوڈیشل ایکٹوازم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس فیصلے کے کئی سیاسی اور قانونی مضمرات ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے حق کو تسلیم کر لیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے رولز بھی بنا سکتی ہے اور یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عدالتوں کے دائرہ کار میں پارلیمنٹ کی مداخلت کا راستہ اب کھل گیا ہے جس سے خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔یہ اہم نکتہ ہے اور اسے نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ اب دیکھنا ہوگاکہ مستقبل میں سپریم کورٹ اس حوالے سے کیا کرے گی یا پارلیمنٹ مستقبل میں اس بارے میں کسی مزید قانون سازی کا ایڈونچر کرے گی یا نہیں ؟ عدالتی فیصلوں کے بعد مختلف قانونی ماہرین اور وکلا صاحبان اس کی تعبیر وتوجیہہ کرتے ہیں، مختلف آرا سامنے آتی ہیں۔ بعض آرا کے مطابق اس فیصلے سے میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین وغیرہ کو نقصان پہنچے گا۔تاہم ن لیگی وکلا اس تاثر کی نفی کر رہے ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ کے اس فل کورٹ سماعت سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں جج صاحبان کو لے کر چلنا بھی آسان نہیں اور اگر ماضی میں فل کورٹ بنانے میں تامل کیا جاتا رہا تو اس کی بھی وجوہات تھیں۔یہ فیصلہ بہرحال کئی اعتبار سے بہت اہم اور تاریخ ساز ہے۔