تخت مری مجبوری ہے بس اک خواب کی دوری ہے سننے والا ہو کوئی آدھی بات بھی پوری ہے عقل مند کے لئے تو بات کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ وہ تو اشارہ سمجھتا ہے ۔خاموشی بھی زبان رکھتی ہے اور بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ بقول کسے کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے وہ سوچتا ہے تو مجھ کو سنائی دیتا ہے بس یہ معرفت کی منزل ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے بہرحال آنکھ نہیں ہے بن آنسو دل میں درد ضروری ہے اور پھر اس کو سات سلام میاں۔جس کا جنوں بھی شعوری ہے۔ اس پس منظر میں ہمیں پیش منظر دیکھنا پڑے گا میں اپنے پاس سے کچھ نہیں کہوں گا کہ ہمارے ادارے اور نابغہ ہائے روزگار کہہ رہے ہیں کہ راستے بند کرنے سے عوام مشکل میں ہیں۔ میرا خیال ہے اس بات کا احساس خان صاحب کو بھی ہو گا انہیں چاہیے کہ وہ جن کے باعث مقبول ہیں ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں بس اتنا کر لیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اب میں آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف کہ چند خبروں نے چونکایا اور پریشان بھی کیا ۔پرویز الٰہی نے فرمایا کہ جرائم کے خاتمے کے لئے وہ پولیس کی پشت پناہی کریں گے بس پشت پناہی کی اصطلاح سے ہم چونکے کہ یہاں تو یہی معروف ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار، چوروں اور ڈاکوئوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ پولیس کی پشت پناہی کم از کم میں نے پہلی مرتبہ سنا ہے بلکہ پشت پناہی کرنے میں تو پولیس خاصی مشہور ہے۔ اگر مجرموں کی پشت پناہی نہ کی جائے تو جرائم ویسے ہی ختم ہو جائیں نہ منشیات بکیں نہ جوئے کے اڈے چلیں اور نہ قحبہ خانے۔ایسے ہی اپنے پیارے بزرگ عبیر ابوذری یاد آ گئے کہ وہ مشاعرے میں خاص انداز میں پڑھتے تھے: پلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہہ جھاڑو نال بناون مور تے فیدا کیہہ پچھوں کردا پھرا ٹکور تے فیدہ کیہہ بوتھی ہو جائے ہور تو ہور تے فیدہ کیہہ بس کیا کہیں یہی کہ رشوت لیتا پکڑا گیا اور رشوت دے کر چھوٹ گیا ہماری تو سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں۔آصف شفیع کے ایک شعر کے ساتھ بات بدلتے ہیں: چپ رہو یار وگرنہ وہ سمجھ جائیں گے ایک ہی لفظ کے تکرار سے مطلب کیا ہے چلیے اس غزل کا مقطع بھی پڑھ لیں: ہم فقیروں کی ہے اک اور ہی دنیا آصف ہم کو شاہوں سے یا دربار سے مطلب کیا ہے میں نثر سے شعر پر آتا ہوں تو نہال ہو جاتا ہوں اور کئی شعر ذھن میں کلبلانے لگتے ہیں ایک تازگی سی محسوس ہونے لگتی ہے وہی عربی شاعر یاد آتا ہے کہ جس نے کہا تھا کہ شعر کمان سے پھینکا ہوا تیر ہے اور نثر ہاتھ سے مارا ہوا تیر۔ ایسے راز مراد آبادی کا شعر خیال میں آ گیا کھلا یہ راز تیری چشم التفات کے بعد کہ زندگی میں نیا پن کہاں سے آتا ہے۔ اچانک یہ بھی یاد آیا کہ ایک دن بیٹھے بیٹھے منیر نیازی کہنے لگے روحی بانو ایک خوبصورت غزل ہے بات کدھر سے کدھر نکل گئی چلیے لگتے ہاتھ اپنے پیارے دوست شفیق احمد کا ایک شعر بھی لکھ دیتا ہں بالکل تازہ سا ہے: ہزار کرب سے گزرا ہوں تب ہرا ہوا ہوں میں ایک پیڑ ہوں پھل پھول سے بھرا ہوا ہوں یہ پھل پھول کے پڑنے کا منظر بھی کمال ہوتا ہے واہ میرے مولا تیری کائنات ایسے مظاہر سے بھری پڑی ہے: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چلیے پھر آتے ہیں سیاست کی طرف کہ ہمارا تو اس میں دم نکلتا ہے کوئی خیر کی خبر کم ہی ہوتی ہے خیر کی خبر یہی ہے کہ نواز شریف کو پاسپورٹ مل گیا۔ شہباز شریف بھی نواز شریف کے گال تھپتھپا رہے ہیں اور نواز شریف جوباً انہیں بوسے سے سرفراز کر رہے ہیں جی میں آتے وسوسے اور واہمے اپنی جگہ کاش نواز شریف بہادر ہوتے اور اپنے وطن واپس آ کر اس مٹی اور فضا کو اوڑھتے اپنی اولاد اور پراپرٹی اس ملک پر وارتے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اصل بیماری جسمانی نہیں روحانی ہے وہ اپنے اندر سپرٹ ہی پیدا نہ کر سکے حالانکہ اس ملک نے انہیں کیا نہیں دیا وہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہے مگر وہ اس کے شہری بننے سے کتراتے رہے اس ملک کے پیسوں سے بنا ہوا محل کا نام بھی جاتی امرا ٹھہرا۔ بھارت سے وہ نکل آئے بھارت ان کے اندر سے نہ نکلا شاید میں کچھ تلخ ہو گیا ہوں۔ ایک اور خبر دل جلانے والی ہے خدا کرے کہ یہ افواہ ہی ہو مگر ایسی خبریں افواہ نہیں ہوتیں کہ اس کی بھی تاریخ ہے۔ سنا ہے حکومت کا بڑے اثاثے حکومت دبئی کو بیچنے کا ارادہ ہے۔ اسحاق ڈار کے موجودہ حکمرانوں سے رابطے اس سے پہلے بھی تو ہمارے بڑے بڑے ادارے رہن ہی رکھے ہوئے ہیں۔ موٹر وے تک بھی رہن ہے۔ ایک مرتبہ صلاح الدین صاحب کے تکبیر میں ایک مضمون پڑھا تھا پاکستان برائے نیلام۔سچ مچ ایسے ہی ہے کہیں باہر پی آئی اے کا ہوٹل بیچنے کا پراپیگنڈا تھا ہمارے تو جہاز بھی اچانک غائب ہو جاتے ہیں جہاں کے رہنما بکتے ہوں وہاں کی پراپرٹی کیوں نہ نیلام ہو گی۔ ابھی دیکھیے کہ شہباز شریف نے لانگ مارچ کے دوران جان سے جانے والوں کے لئے پچاس پچاس لاکھ روپے کا اعلان کیا تو اچھی بات ہے مگر اس سے زیادہ اچھی بات تب ہوتی کہ وہ یہ پیسے اپنی جیب سے دیتے یہ عوام کا پیسہ ہے اور آپ اسے نہایت چالاکی سے خیر سگالی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ لانگ مارچ پھر شروع ہے پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے شاید حکومت بھی انہیں تھکا تھکا کر مارنا چاہتی ہے سب سے زیادہ زور آرمی چیف کی تقرری پر ہے کہ دونوں جانتے ہیں کہ ان کی بقا اسی سے ہے یا دوبارہ اقتدار میں آنا اسی سے منسلک ہے۔ وہ نیوٹرل ہونے کی کوشش کریں مگر ہم انہیں نیوٹرل نہیں ہونے دیں گے۔فقیہہ حیدر کا ایک شعر: لوگ دنیا کے لئے تخت بچھانے میں رہے ہم نے جوتوں کی طرح پہنی اتاری دنیا