الٹی طرف بہائو کے نیاّ کئے ہوئے اتریں گے پار ہم ہیں تہیہ کئے ہوئے ہم جانتے ہیں لیکن ابھی بولتے نہیں کچھ لوگ کیوں ہیں نرم رویہ کیے ہوئے ایسے میں ہم کیا لکھیں کہ جب 180کے زاویہ پربیانیے بدل رہے ہیں یعنی ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلمان ہو گیا۔پتہ نہیں یہ لوگ کھڑے کھڑے ایڑھیوں پر گھوم کیسے جاتے ہیں۔کوئی تجربہ کار بھی ایسے یوٹرن نہیں لے سکتا۔چلیے چھوڑیے روس کی طرف جھکائو یا امریکہ کی طرف بہائو وقت کا تقاضا ہے۔ ہم آج پر کچھ نہیں لکھیں گے۔ہم تو کرکٹ سے آغاز کریں گے کہ اتوار ہمارا کرکٹ کی نذر ہوا کیوں نہ ہوتا یہ تو اپنے وطن کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے اور کچھ اپنا جنوں بھی۔یہ بھی طے ہے کہ ایک ٹیم نے جیتنا ہوتا ہے مگر اک ملال ضرور رہتا ہے ۔ زمبابوے کے خلاف بھی دس قیمتی بالیں ضائع کیں ۔علاوہ ازیں بالنگ میں وائڈ بالیں۔ ٹی ٹونٹی میں بس اتنی ہی گنجائش ہوتی ہے۔ سب سے بڑا دھچکہ اس وقت لگا کہ ہماری بائولنگ جب انہیں تگنی کا ناچ نچا رہی تھی اور انہیں باندھ کر رکھا ہوا تھا ہمارا شاہین کیچ پکڑتے ہوئے زخمی ہو گیا۔اپنے سیکنڈ لاسٹ اوور کی صرف پہلی گیند کروا سکا۔بس قدرت کو ایسے ہی منظور تھا کوئی بات نہیں پھر بھی مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا ۔چلیے کرسچن ٹرنر ہمارا یہ کہہ کر دل رکھ لیا کہ ٹرافی انگلینڈ نے جیتی لیکن دل پاکستان نے۔ایسے ایک حوالے سے یہ درست ہے کہ اتنے کم سکور پر انگلینڈ جیسی فری ہینڈ ٹیم کو انڈر پریشر کر دینا ہمارے بائولرز ہی کا کمال تھا ۔ بہرحال اس ٹورنامنٹ نے ثابت کر دیا کہ ہم دنیا کی دو بڑی ٹیموں میں ہیں۔ ہم بھارت کی طرح حلوہ ثابت نہیں ہوئے بلکہ برطانیہ کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوئے ۔پتہ نہیں مجھے یہاں سعد رفیق کیوں یاد آ گئے کہ یہ محاورہ انہی کے ساتھ منسوب ہو کر رہ گیا۔ہم اس پر بات کر کے انہیں ناراض نہیں کریں گے۔ اب کچھ بات ادب کی ہو جائے کہ اتوار ہی کے روز بزم طارق چغتائی کا مشاعرہ تھا اور صدارت ہماری تھی ہم نے انہیں پوچھا کہ وسیم عباس صاحب آپ نے کرکٹ فائنل کے روز مشاعرہ کیوں رکھا؟ فرمانے لگے جب تاریخ رکھی گئی تو پاکستان کے فائنل میں نہ پہنچنے کا انہیں پختہ یقین تھا پھر انہوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ مشاعرہ ایک بجے سے پہلے ختم ہو جائے گا۔ پھر میچ ایسا ہوا کہ ہم نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ اس مشاعرہ کو ٹی ٹونٹی مشاعرہ بنا دیا کہ خبردار کوئی ایک غزل سے زیادہ سنائے۔ظاہر ہے شاعروں نے چنیدہ غزل پیش کی۔ایسا شاندار مشاعرہ کم ہی پڑھنے کو ملے گا۔ہماری صدارت کے ساتھ مہمانوں میں توقیر شریفی‘ احمدآکاش، فرخ محمود اور انمول گوہر تھیں۔ خوشی کی بات یہ ہے ہمارے دوست طارق چغتائی کے بعد یاروں نے اس بزم چغتائی کی شمع کو بجھنے نہیں دیا۔اس حوالے سے وسیم عباس‘ محمد عباس مرزا اور عاصم خواجہ لائق صد تحسین ہیں۔ ان مشاعروں میں اگرچہ وقت نکال کر جانا پڑتا ہے مگر بعض اوقات آپ کو نئے خیالات اور انمول جذبے میسر آتے ہیں۔ مثلاً شفقت رسول مرزا نے ایک شعر پڑھا تو ماں کا ایک انمول چہرہ سامنے آ گیا: ماں نے ہر درد کو محسوس کیا آٹے میں زندگی کیا ہے مجھے گوندھ کے سمجھائی ہے ماں کے اشعار میں ایک اچھے شعر کا اضافہ ہوا اپنے بچے کا ہر ایک جرم چھپا لیتی ہے اک عدالت پر بھی نہیں ماں کی عدالت جیسی پھر ہمارے ایک استاد شاعر ممتاز لاہوری نے ایک لاجواب شعر پڑھا: بساط کچھ بھی نہیں باتیں پیغمبروں جیسی بجھے چراغ بھی شمس و قمر بنے ہوتے ہیں یقینا یہ شاعری اپنے عہد کا شعور ہے ہمیں زمانے نے سب کچھ سکھا دیا ورنہ ہمارے پاس تو ایسا کوئی کمال نہ تھا۔ایک شعر ولایت احمد فاروقی کا دیکھیے؟ پرندوں کا اگر جینا ہے لازم یہاں بے بال و پر جینا پڑے گا میرا خیال ہے کہ میں کچھ اشعار لکھ دیتا ہوں کہ ان دوستوں کے اچھے شعر آپ کو لطف دے جائیں: کوئی مشکل ہی نہیں جاں سے گزرنے کے لئے سو بہانے ہیں ترے شہر میں مرنے کے لئے (سہیل ثانی) سانس ملتے نہیں ادھار میاں زندگی سوچ کر گزار میاں (احمد آکاش سبحانی) رہا ہوں مدتوں اک آئینے میں پھر اس کے بعد میں چہرا ہوا ہوں (وسیم عباس) مجھ کو خواہش کا گرفتار ابھی ہونا ہے یعنی ایک رقص سرخار ابھی ہونا ہے (گلزار) حسن ہے اتنا ضروری وجود کا اظہار ہوا کو پیڑ ہلانا پڑا کہ میں بھی ہوں (احتشام حسن) ہم نے خاموش وظیفے میں تمہیں مانگا ہے ہاتھ اٹھے ہیں مگر لب پہ دعا کچھ بھی نہیں (سید توقیر احمد شریفی) جس کو چاہا وہی کہتا ہے وفا کچھ بھی نہیں ایسا لگتا ہے مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں (طاہر علی) کیوں اداسی بنا وجہ آ جاندی اے سانوں ایہہ الجبرا کوئی سمجھاندا نہی نئیں (محمد عباس مرزا) آخر میں پروفیسر فرخ محمود کے دو اقوال پھول خوشبو کی روح جبکہ اظہار روح کی خوشبو ہے دوسروں کے لئے جلنے والے روشن جبکہ دوسروں سے جلنے والے راکھ ہو جاتے ہیں۔