مئے دوشینہ سے جیسے ایاغ چلتا ہے ہمارے گریہ سے سینے کا داغ جلتا ہے میرا خیال ہے یا پھر ہے کوئی حسن خیال اس ایک پھول سے سارا ہی باغ جلتا ہے میرا دل چاہا کہ آپ کو شعر ثانی سے حسن تعلیل کا مزہ دوں اور پھر شعر کی مرضی ہے کہ آپ کو جدھر چاہے لے جائے۔ خدا کے واسطے روکو نہ مجھ کو روکنے سے۔ وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے۔ ہماری باتوں میں یہ جو بلا کی تلخی ہے۔ کسے بتائیں کہ سینے کا داغ جلتا ہے۔ سچ مچ ہمارے سینے سے یہ داغ لگے ہی بہت۔ یعنی مت ہمیں چھیڑ کہ ہم رنج اٹھانے کے نہیں۔ زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں۔ سردست ہماری نظر حضرت بلاول کے بیان پر پڑ گئی کہ برطانیہ نے پاکستان کو ہائی رسک تھرڈ ممالک سے نکال دیا ہے۔ میں بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ یہ تھرڈ کنٹری کیا ہوتا ہے۔ اصل میں تھرڈ کلاس رہنمائوں یا لیڈروں کے باعث ہی اس مقام کو پہنچتے ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں تھرڈ ورلڈ کو نہیں سمجھتا۔ سمجھتا ہوں بلکہ تھرڈ صنف کو بھی جانتا ہوں۔ اس دنیا میں رہنے کے لیے سب کچھ جاننا پڑتا ہے۔ جناب بلاول کے لیے خوشخبری ہے کہ ہائی رسک تھرڈ کنٹریز سے نکل گئے۔ میرا خیال ہے تھرڈ درجے کے لوگوں کو ملک سے نکال دینا چاہیے۔ کچھ تو اس کی جسارت خود ہی کرلیتے ہیں۔ آپ لوگوں نے اس ملک میں چھوڑا کیا ہے۔ آپ کی دلچسپی سوئس بینک بھرنے تک محدود رہی۔ برطانیہ اور دبئی آپ کی آماجگاہیں ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں۔: جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں کیا بلاول یہ کبھی نہیں سوچتے کہ کیا انہیں تحفے میں ملنے والا محل حلال دولت کا ہے۔ مگر پوچھے کون کہ پوچھنے والے کو اس لیڈر،اس سٹیک ہولڈر کا پانی بھرتے ہیں۔ بڑی بڑی کلیدی آسامیوں سے ریٹائر ہونے کے بعد یہاں زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں اور پراپرٹی ڈیلنگ کے گرسیکھتے ہیں۔ ہائے پورا پاکستان ہی کسی نہ کسی کی پراپرٹی ہے۔ یہاں تو وہ صرف کمانے کے لیے بیٹھے ہیں۔ آسودگی انہیں باہر ہی ملتی ہے کہ ان کی راحت یہاں نہیں ہے۔ اب تھرڈ ورڈ کی بات چھوڑیں۔ یہ جو ہمیں خوشخبریاں سناتے ہیں انہوںنے کبھی ہمیں ہوش آنے ہی نہیں دیا۔ بانٹنے والوں نے بھی انہیں اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں۔ بانٹنے سے آپ کو وہ کہاوت ضرور یاد آئی ہوگی جس میں دو بلیاں انصاف کے لیے بندر کے پاس گئی تھیں۔ ساری روٹی اس انصاف میں بندر کے کام آئی۔ ہمارا مقصد کسی کو شرمندہ کرنا نہیں کہ وہ تو ہم کرنہیں سکتے۔ یہاں کون شرمندہ ہوتا ہے۔ رات کچھ بات کی جاتی ہے اور صبح بیانیہ بدلا ہوتا ہے اور کمال یہ کہ حرام ہے کسی کی پیشانی پر کوئی عرق ندامت کا قطرہ بھی ہو۔ گویا یہ سیاست ہے۔ ہر دم تغیر‘ اچھا ہے ٹھہرے پانی پر تو کائی جم جاتی ہے یہ مگر رولنگ سٹون میں یعنی گھومتے پتھر جس پر کچھ نہیں ٹھہرتا کیا کریں ہمیں انہوں نے اپنے اثر میں رکھا ہوا ہے۔ چلیے یہاں سچ مچ کے محبوب کے حوالے سے شعر یاد آ گیا: گردش میں ہم رہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا وائٹ ہائوس ان سب کاکعبہ ہے۔ وگرنہ ہم سوچتے تھے کہ کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ یہ بات ہمیں پروفیسر جاوید اکرم نے لکھ بھیجی ہے کہ ان کا کعبہ وائٹ ہائوس ہے۔ پھر غالب یاد آیا۔ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر۔ کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے۔ یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ کرتوت ہمارے سب ایسے ہی ہیں۔ جب رہنمائوں کی عید شبراتیں وہاں ہوں گی تو قوم کیا سوچے گی۔ اب تو سیاست بھی آن لائن باہر سے ہو رہی ہے۔ اب ان کے کیس بھی باہر لگتے ہیں۔ ہمارے کرکٹر بھی تو جوا باہر جا کر لگاتے ہیں اور پھر سزا پاتے ہیں اور تو اور آصف جیسا بائولر بھی اس کام میں ذلیل و خوار ہوگیا۔ اس نے گویا عطائے خداوندی کی ناشکری کی۔ یہ بھی ایسے ہی ہیں اللہ نے انہیں محلات سے نوازا مگر جلاوطنی کی صعوبت میں ہیں۔ لوگوں کے دلوں سے بھی نکلتے جا رہے ہیں۔ اب ہم بھی ویسے ہوئے جا رہے ہیں کہ: اس عہد کے لوگوں کو پسند آیا ہے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہوا اک شخص چلیے اس سے کچھ آگے چلتے ہیں کہ کچھ پوسٹیں ادب کے حوالے سے مزہ دے جاتی ہے۔ کسی نے خوب لکھا کہ اپنے رہنما کے لیے لوگ اس قدر ہٹ دھرم ہو جاتے ہیں کہ ان کی عادت بن جاتی ہے۔ پھر کسی بات پر وہ شرمندہ ہونے کی کوشش بھی کریں تو ان کے اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سہولت آپ کو حاصل نہیں ہے۔ سچی اور سیدھی بات تو یہی ہے کہ کسی کے پاس فخر کرنے کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ ن لیگ والوں سے جب بھی پوچھو کہ بائو جی واپس کب آئیں گے وہ آگے سے فرماتے ہیں عمران انتہائی دھوکے باز ہے۔ اس نے نوازشریف سے پلاٹ لیا تھا۔ زرداری کے مداحوں سے کچھ پوچھو تو وہ کہتے ہیں کہ عمران نے خود کہا تھا کہ وہ صرف ایک ہی سیاسی لیڈر سے متاثر ہے وہ ہیں آصف علی زرداری۔ ویسے زرداری کے متاثرین میں تو کئی لوگ ہیں۔ کسی کے سینئر ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ وہ آپ جاتے ہی ہیں کہ کسی نے ایک لکیر کھینچی اور کہا کہ اسے ٹچ کئے بغیر چھوٹا کردو۔ ایک سمجھدار شخص نے کاغذ پکڑ کر اس کے برابر میں بڑی لکیر کھینچ دی۔ یہ لکھیر بھٹو نے بھی کھینچی تھی اور پھر اسی نے بھٹو پر لکیر کھینچ دی تھی۔ بس اتنی بات ہی کافی ہے کہ خطرناک ہو جائے گی۔ آخری بات فاطمہ قمر کی۔ کہتی ہیں سو گاڑیوں نے عمران خان کے بچوں کا استقبال کیا اور پانچ ہزار پولیس والے حفاظت پر مامور تھے۔ خان تو اس کلچر کو ختم کرنے آیا تھا۔ میں مسکرا دیا کہ اس کلچر نے خان کے آدرش ہی بدل دیئے۔ دل کہتا ہے کہ اس کے بچے بھی موروثی سیاست کا شکار ہو جائیں گے کہ سو گاڑیوں کا جلوس دماغ خراب کردیتا ہے۔ جیسے افضل گوہر کا ایک پیارا سا شعر: ایک بے کار ہیں وہ جو یار نہیں ہوتے سارے پھول کو خوشبودار نہیں ہوتے