قاتل اور مقتول کے خاندان میں راضی نامہ کی بنیاد پر سندھی وڈیرے شاہ رخ جتوئی کو سپریم کورٹ نے بری کر دیا، اس عدالتی فیصلے پر سوشل میڈیا میں ہاہا کار مچی ہے اور نظام عدل و انصاف پر خوفناک تبصرے جاری ہیں۔ نوسال قبل مقتول شاہزیب کے والدین نے قاتل شاہ رخ جتوئی سے راضی نامہ کا کڑوا گھونٹ پیا، میڈیا میں مقتول کے مظلوم والدین پر تنقید ہوئی تو معاصر اخبار میں کالم لکھا جو قند مکرر کے طور پر قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔ ’’مقتول سے ہمدردی اور قاتلوں سے نفرت کا یہ انداز بھی خوب ہے۔‘‘ مقتول کا خاندان اس بنا پر طعن وتشنیع ، الزام و دشنام کا نشانہ بن رہا ہے کہ باپ نے اپنے نور نظر ، ماں نے لخت جگر اور بہنوں نے دل کے سرور کاخون کیوں معاف کیا، اپنے اوپر آنے والے دباؤ، مستقبل کے اندیشوں اور خوف و تنہائی کو نظر انداز کرکے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے سمجھوتہ کیوں کیا؟‘‘ ’’کیا محض اس بنا پر کسی غمزہ باپ، کوکھ جلی ماں اور دہشت زدہ بہنوں کے زخموں پر نمک پاشی روا ہے کہ انہوں نے کسی خوف یا دباؤ کے تحت، ذات برادری اور محلے داروں کے کہنے سننے پر اندیشہ ہائے دور و دراز سے گھبرا کر یا فرض کیجئے لالچ کے تحت اپنے بیٹے اور بھائی کا خون بہا وصول کیا اور قاتل کو معاف کر دیا؟ کیا قرآن مجید،احادیث رسولؐ اور ملکی قانون میں خون بہا، معافی اور دیت کے الفاظ محض خانہ پری کے لئے درج ہیں اور انہیں برتنا ناقابل معافی جرم ہے ؟ حالانکہ دیت و قصاص کا قانون نافذ ہونے سے پہلے بھی اینگلو سیکسن لاء کے تحت قاتل و مقتول خاندان کے درمیان صلح اور عدالت سے باہر سمجھوتے کا رواج تھا۔گواہوں، پولیس اور عدالتوں سے لین دین کے واقعات ہوتے تھے۔جھوٹے گواہ پیش کرنے اور اصل گواہ منحرف کرانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور چھوٹی بڑی عدالتوں میں روزانہ یہ کاروبار ہوتا ہے۔‘‘ ’’پاکستان میں کئی قسم کے قوانین نافذ ہیں۔ شرعی، اینگلو سیکسن اور پاٹا فاٹا میں ایف سی آر، مگر سب سے موثر غیر تحریری قانون یہ ہے کہ قاتل، ڈکیت، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور قبضہ گیر اگر طاقتور، بارسوخ، دولت مند اور اقتدار کے کھیل میں شریک ہو تو اس کے سات نہیں سات سو خون معاف۔قومی دولت لوٹنا تو ویسے ہی کوئی جرم نہیں بلکہ اعلیٰ مناصب کے لئے کوالیفکیشن ،البتہ اس الزام میں کوئی غریب قانون کے ہتھے چڑھ گیا تو اکیلا ملزم نہیں پورا خاندان گردن زدنی، دھان بچہ کو لہو پلوا دیا جائے۔‘‘ ’’کراچی میں اکیلا شاہ زیب قتل نہیں ہوا روزانہ درجنوں قتل ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کا دعویٰ ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد صورتحال بہتر ہوئی ہے مگر آج کے اخبارات میں ایک درجن افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع درج ہے۔ اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی بات اور ہے مگر جن قاتلوں کا سب کو علم ہے ان کے خلاف قانون کب حرکت میں آیا ہے اور قاتلوں کو عدالتوں کی طرف سے سزا ملنے کے بعد کس نے پھانسی پر لٹکایا ہے ؟ بے نظیر بھٹو کے قاتل زندہ ہیں اور پانچ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والے وارثوں میں سے کوئی شرمندہ تک نہیں۔ جی ایچ کیو حملہ کیس کے قاتل تختہ دار پر لٹکائے نہیں جا سکے اور ولی خان بابر صحافی کے دس گواہ موت کے گھاٹ اتر چکے۔ کسی کو پرواہ نہیں اس کے باوجود میڈیا، سول سوسائٹی اور وکلاء برادری کا اصرار ہے کہ شاہ زیب کے وارث ڈٹے رہتے اور اس بات پر مطمئن کہ شاہ زیب پھانسی چڑھے نہ چڑھے جیل میں تو بیٹھا ہے۔یہ اور بات ہے کہ بااثر مجرموں کے لئے جیل بھی ماسی کا ویہڑہ ہوتی ہے مرغن کھانے، پرتعیش کمرہ اور شراب وشباب ، باہر رابطوں کی ہر سہولت میسر۔‘‘ ’’بجا کہ میڈیا، سول سوسائٹی ، اعلیٰ عدلیہ اور شاہ زیب کے جی دار پڑھے لکھے دوستوں کی وجہ سے یہ ٹیسٹ کیس بنا اور ہر طرح کے دباؤ کے باوجود قاتلوں کو سزا ہوئی مگر یہ سب اس تلخ و سنگین حقیقت کو فراموش کر گئے کہ پاکستان میں ایسا کوئی جزیرہ نہیں جس میں طاقت، دولت اور اثرو رسوخ کا سکہ نہ چلتا ہو اور جہاں یہ دھمکی کارگر ثابت نہ ہوتی ہو کہ ایک بیٹا چلا گیا اب دوسری اولاد کی خیر مناؤ جو اتفاق سے صنف نازک ہے اور مجرموں کا آسان نشانہ۔ کون جانتا ہے کہ دو بیٹیوں کے ماں باپ اورنگزیب اور اس کی اہلیہ کو کون سی دھمکی نے ڈھیر کر دیا۔اخباری اطلاعات کے مطابق جناب نبیل گبول، سید غوث علی شاہ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ روز اول سے معافی تلافی کے لئے کوشش کر رہے تھے اور 250ملین روپے دیت کی پیشکش ابتداہی میں کر دی گئی تھی۔‘‘ ’’جب سزائے موت کے حوالے سے یورپی یونین، سول سوسائٹی اور مخصوص ابلاغی مہم کا دباؤ ریاست برداشت نہیں کر سکتی ، گواہوں کو تحفظ دینے سے یہ قاصر ہے اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کو یہ اپنی اولین ذمہ داری نہیں سمجھتی، روزانہ لوگ قتل ہوتے، صرف گواہ ہی نہیں تفتیشی افسر اور جج مارے جاتے اور ان کے لواحقین کا کوئی پرسان حال نہیں تو شاہ زیب کے والدین سے یہ توقع کرنا کونسی عقلمندی ہے کہ وہ ڈٹے رہیں۔ ساری زندگی خوف اور تنہائی میں اندرون و بیرون ملک گزار دیں اور یقین پھر بھی نہ ہو کہ وہ بااثر جاگیر داروں، وڈیروں کے انتقام سے بچ گئے۔اس سے بہتر نہ تھا کہ وہ معافی اور خون بہا قبول کرکے باقی زندگی بے خوف پرسکون گزارنے کی آپشن پر غور کرتے کیونکہ ریاست تو انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے اور قاتلوں کو نشان عبرت بنانے سے رہی۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمسن پپو کے قاتلوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا گیا تو عرصہ دراز تک اغواء برائے تاوان کی وارداتیں رک گئیں۔ آج میاں نواز شریف شاہ زیب کے کسی قاتل کے خلاف یہ کارروائی کر سکتے ہیں ؟میڈیا اور سول سوسائٹی ان کا ساتھ دیگی ؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔‘‘ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں جینے کے طریقے دو ہیں طاقت، دولت اور اختیار کے زور پر اندھیر مچائے رکھو، قتل، ڈکیتی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کو شعار کرو یا پھر ان قاتلوں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، وحشی درندوں اور عزتوں، عصمتوں کے لٹیروں سے تصفیہ کرلو، باقی سب کہنے کی باتیں ہیں۔ شاہ زیب کے ورثاء نے تو جو کیا سو کیا، اچھا کیا یا برا کیا اپنے بیٹے کی روح اور اپنے رب کے سامنے وہ جوابدہ ہیں مگر ہم ایک دکھی خاندان کے زخموں پر نمک پاشی کرکے کتنے نفلوں کا ثواب کما رہے ہیں ؟شاید ہم شاہ زیب کے والدین اور بہنوں سے زیادہ سگے، ہمدرد اور غمخوار ہیں اوراس خاندان کو ریاست سے زیادہ تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔‘‘ ’’کیا حکومت میں یہ جرات ہے کہ وہ استغاثہ کے طور پر عدالت میں دیگر دفعات کے تحت سزا کو برقرار رکھنے کی استدعا کرے۔ جتوئی خاندان سے خون بہاکے لئے ادا کی گئی پچاس کروڑ روپے کی رقم کا حساب طلب کرے کہ کیسے کمائی اور کتنا ٹیکس دیا ؟ اور قوم کو بتائے کہ یہ معاہدہ کن لوگوں نے کرایا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کون کون سے سیاست دان شریک ہیں۔ شرم اورنگزیب اور اس کے خاندان کو نہیں اس ریاست، معاشرے اور حکومت کو کرنی چاہئے جو آج تک عوام کو تحفظ فراہم کر سکی نہ مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی اہل ہے اور جہاں قاتل سزا پانے پر وکٹری کا نشان بناتے جبکہ مقتول کے لواحقین صفائیاں پیش کرتے ہیں۔ کمزور مدعی کے پاس صلح صفائی، معافی تلافی اور خون بہا وصول کرنے کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ ریاست خود تو ریمنڈڈیوس کی رہائی کے لئے دباؤ بھی ڈالتی ہے اور خون بہا بھی دیتی ہے عام آدمی بے چارہ کیا کرے۔‘‘ (12ستمبر2013ئ) شاہ رخ جتوئی کی راضی نامے کی بنا پر بریت کے بعد 2013 میں ہی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے از خود نوٹس لیا ریاست مدعی بنی مقدمہ چلا اور ہائی کورٹ نے مجرموں کو عمر قید سزا سنائی مگر آج ریاست نے بھی قاتل سے صلح کرلی، ہمیشہ کی طرح، حسب دستورو عادت۔ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔