تلخی زیست کے عذاب کے ساتھ ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ اختتام سفر کھلا ہم پر وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ پھر یوں بھی ہے کہ سخت کافر ہیں وہ جو رکھتے ہیں۔ نشہ چشم کو شراب کے ساتھ۔ پھر ثمینہ راجہ کیوں یاد نہ آئیںگی۔ رات کی طشتری میں رکھی ہیں۔ میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ۔ آمدم برسر مطلب ۔ دوست اور انقلابی شاعر سرور ارمان کی طرف سے ارمغان وصول ہوا۔ عارف عبدالمتین میری نظر میں۔ اس کے سرورق پر عارف عبدالمتین کی تصویر ہے‘ سرخ و سفید رنگ‘ کشمیری خدوخال اور بلا کی معصومیت۔ ہائے ہائے کیا شخصیت تھی۔ درون سے اندرون تک اجلی‘ وہ پیار محبت‘ خلوص اور ایثا کا پیکر تھے۔ سرور ارمان صاحب کی یہ یادداشتیں ہیں اور میرے سامنے سارے پس منظر اور پیش منظر کھل گئے۔ وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا کہ ’’طبلہء عطار کھل گیا‘‘ ایسی ایسی خوشبو سیلبریز محفلیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ریڈیو پاکستان پر اپنی پہلی غزل ’فطرت‘ عارف عبدالمتین کی صدارت میں پڑھی۔ غالباً 1985ء کی بات ہے۔ تب میں ریڈیو میں اسماعیل بھٹی مرحوم کے ساتھ انگریزی پروگرام کیا کرتا تھا۔ دوسری یاد یہ آئی کہ پہلی مرتبہ میں عارف عبدالمتین کے ہمراہ نارووال سرور ارمان کے شعری مجموعہ سراب مسلسل کی تقریب پذیرائیمیں گیا۔ کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ وہاں کے فیض امن مشاعرہ پر ہی میں گیا تھا۔ سرور ارمان کو فیض صاحب سے بھی بہت عقیدت تھی اور ان کی زبانی ہم نے بھی یہ فیض حاصل کیا۔ انہیں عارف صاحب کے ساتھ عقیدت کی حد تک پیار تھا۔ اس محبت میں ہم بھی شریک تھے۔ سرور ارمان کا شعر ہے: گو کرب انتظار کا موسم طویل تھا امید کے چراغ سحر تک جلے رہے ایک اور شعر اسی غزل کا آب حیات لے کے نگاہوں کی جھیل میں ہم لقمہء سراب مسلسل بنے رہے اس کتاب میں عارف عبدالمتین کے شب و روز نہایت تفصیل اور سلیقے کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ سرور ارمان کی نثر اس قدر رواں دواں اور خوبصورت ہے کہ انسان بغیر سانس لیے پڑھتا جاتا ہے۔ اچھی نثر بھی اچھی شاعری کی طرح ہوتی ہے اس فن میں وہ طاق ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان کا اپنے ممدوح کے لیے والہانہ پن ہے۔ سات باب باندھے گئے ہیں۔ عارف صاحب کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی اردو اور پنجابی شاعری کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عہد کو آئینہ کر دیا گیا۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ عارف صاحب کی وابستگی اور ان کی تخلیقی ایج اور پھر بحیثیت مسلمان ان کی راسخ العقیدگی۔ یعنی سرور صاحب نے کئی اشکال کو دور کیا ہے۔ چونکہ سرور ارمان سالہا سال تک میرے ساتھ آئینہ میں وابستہ ہے اور انہیں نہایت قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ وہ اپنے انقلابی اور مزاحمتی رویے کے ساتھ ساتھ سخت قسم کے محب وطن اور خوش عقیدہ ہیں۔ حضور اکرمؐ کے ساتھ بے حد محبت رکھتے ہیں۔ یہی رویہ عارف صاحب کا تھا۔ ہماری عارف صاحب سے ملاقاتیں اس خوشبو میں بسے لمحات میں تھیں۔ جہاں تک عارف صاحب کے ادبی کارناموں کا تذکرہ ہے تو وہ اس کتاب میں موجود ہیں۔ یک مصرعی نظم اور نثری نظم کے تجربات وغیرہ۔ اگرچہ فیض صاحب نثری نظم کو نہیں مانتے تھے۔ مگر عارف صاحب قائل تھے۔ فیض صاحب ان کے باقاعدہ استاد تھے۔ امرتسر میں انہوں نے فیض صاحب سے ایف اے میں انگریزی پڑھی تھی۔ عارف صاحب نے خود بھی ایم اے انگریزی کیا تھا اور وہ ایم اے او کالج میں تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ جیلانی کامران کے بقول زندگی کے طویل سفر پر عارف عبدالمتین نے انسان شناسی کی راہ میں کئی منزلوں کی آشنائی پائی: مجھے قحط سخن کا خوف کیسا فلک ہوں اور تاروں سے بھرا ہوں تخیل کی فراوانی ہے اتنی کہ اے تخلیق فن گھبرا گیا ہوں عارف صاحب کہتے ہیں ’’ادب روز اول سے مقصد حیات رہا ہے۔ اسے بے غایت یا مقصد بالذات قرار دینا خود فریبی ہے یا دوسروں کو فریب دینے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش ہے۔ جہاں تک غائت ادب کا تعلق ہے تو وہ زندگی کو بنانے سنوارنے اور ارتقا سے ہم آغوش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ زندگی سے کسی خاص طبقہ کی زندگی مراد نہیں بلکہ پورے معاشرے یا پوری قوم کی زندگی مراد ہے۔ کہ صورت حال صرف ہموار معاشرے ہی میں ممکن ہے۔ لہٰذا ادب کی اپنی غائت کا مطالبہ ہے کہ وہ جدوجہد حیات میں براہ راست شریک ہو کر اس کی تکمیل کا موجب بنے۔ آپ اس تحریر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ شعر و شاعری اور ادب کوئی لفظی عیاشی یا وقت کٹی نہیں بلکہ کس قدر مقدس کارتھا۔ وہی جو برئوننگ نے کہا تھا کہ شاعری چائے کا کپ نہیں‘ یہ کتاب ہمیں اس عہد کے تابناک روز و شب کا پتہ دیتی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو ان رویوں کو دیکھنا چاہیے۔ جس انداز اور اسلوب سے سرور ارمان نے یہ نگارش پیش کی ہے وہ نہایت قرینہ رکھتی ہے۔ محبت کرنے والوں کو سرور ارمان سے سیکھنا ہے کہ اپنے ممدوح کے ساتھ محبت کیسے کی جاتی ہے۔ اس سے ملنا اور گفتگو کرنا کتنا دلنواز ہوتا ہے۔ عارف صاحب نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ قطع یا رباعی بھی کہتے تو ان کے سامنے مربوط فکر اور فنی نظام ہوتا ہے: صد چاک اندھیرے کی قبا ہم سے ہوتی ہے تاریکی افلاک فنا ہم سے ہوتی ہے ہم صبح کو خورشید ہیں اور شام کو مہتاب ہر لمحہ کی تزئین و جلا ہم سے ہوئی ہے کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کالم کی مجبوری اپنی جگہ چند اشعار اور: کون پہچانتا ہے مجھے عارف میرا چہرہ تو سب کا چہرہ تھا ہر قدم پر صلیب غم کی تلاش ابن مریم بنا دیا تو نے اس شہر سے انصاف کی رکھتا ہوں توقع جس شہر کی قسمت میں عدالت بھی نہیں