عالمِ طوفِ حرم سب سے نرالا ہے میاں ایک منظر ہے کہ بس دیکھنے والا ہے میاں والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں وزیر اعظم کی ایک اور تقریر، سوچا کہ ریت پر کسی گرانے کا کیا فائدہ۔ لفظوں کی حرمت و توقیر کا خیال آیا۔ بہرحال ماہِ صیام کی تطہیر و پاکیزگی مشامِ جاں میں گھلتی ہے تو اس دنیا کو بھی مشامِ جاں بنایا جائے۔ دل میں آیا کہ اپنے احساس کو معطر کیا جائے۔ کچھ روز قبل معروف نعت گو سرور حسین نقشبندی نے سہ ماہی مدحت بھیجا۔ اس کے ضمن میں ’’گرجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری‘‘ والا معاملہ ہے کہ وہ صبح و مساکی سعی سے اس رمضان کو حمد و نعت ہی سے مزین نہیں کرتا اسی حوالے سے جامع اور مفید مضامین کو بھی یکجا کرتا ہے۔ اوپر سے وہ خود نعت کہتا ہے اور الحان دائودی سے پیش بھی کرتا ہے۔ یہ حمد و نعت کا معاملہ بڑا پراسرار ہے۔ یہ نعت تو بہت ہی ذمہ داری کا معاملہ ہے کہ نعت نعت ہی ہے۔ خالد احمد کا نعتیہ قصیدہ تشبیب پڑھ رہا تھا تو انہوں نے شعری بیان میں کیا خوبصورت انداز میں حد فاصل کھینچی ۔میں نے خانہ کعبہ کو دیکھ کر جو محسوس کیا وہ لکھ دیا: رنگ سارے ہی یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے میاں میں اپنے قارئین سے آج اپنا یہ تجربہ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ بہت برس پہلے جب میں عمرہ کے لیے گیا تو اس روایت کے تحت کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی جو مانگو مل جاتا ہے، میں نے حمد مانگی۔ پھر میں وہاں بیٹھ گیا اور سوچ سوچ کر تھک گیا مگر سخنوری جواب دے گئی۔ کوشش بسیار کے بعد فقط ایک مصرع ذہن میں آیا: ’’ایک منظر ہے کہ بس دیکھنے والا ہے میاں‘‘ میں نے اسی کو اشارہ سمجھا کہ حمد نہیں ہو گی، میں وہاں سے اٹھا طواف کیا اور باقی عبادت ۔ اس اگلی صبح میں تہجد کے لیے اٹھا اور دست طلب اٹھائے کہ میری حمد پوری کروا مولا۔ اسی مصرع سے میں نے آغاز کیا اور حمد مکمل کی اب قصہ یوں ہے کہ واپسی ہوئی تو اگلے روز یہ حمد نوائے وقت کی زینت بنی تو علی الصبح پیارے سینئر دوست شاعر شعیب بن عزیز کا فون آ گیا اور کہنے لگے ’’سعد! ایک عرصے سے میں ایک شاعر کی تلاش میں تھا جو حمد میں انوالو ہو ’’تو یہ حمد میرے سامنے ہے‘‘ تھوڑی دیر بعد پھر فون انہوں نے کیا ’’کیا تم نے سائنس پڑھ رکھی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’جی‘‘۔ پھر انہوں نے مندرجہ بالا شعر کا تذکرہ کیا۔ مقصد لکھنے کا یہ ہے کہ کبھی کبھی اللہ یکسوئی عطا کرتا ہے۔ نعت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے صوفی فقیر نے کہا تھا: کیا فکر کی جولانی کیا عرضِ ہنر مندی توصیف پیمبر ہے توفیق خداوندی سرور حسین نقشبندی چونکہ تخلیق کار ہے اور حس جمال رکھتا ہے اس لیے اس نے اپنے اس سہ ماہی میں الگ حصے کے نام بھی رکھے ہیں جو بہت ہی بھلے لگتے ہیں۔ حصۂ حمد ’’یا حی یا قیوم ہے‘‘ تو ’’سلسلہ حضوری کا‘‘ نعت کے لیے ہے۔ اس میں گوشۂ خالد محمود نقشبندی بھی شامل ہے اور دوسرے تنقیدی مضامین۔ اس شعبے کو تحقیق و تنقید کہا گیا ہے۔ بہرحال حمد و نعت کے حوالے سے زیادہ علم و تدبر کی ضرورت ہے۔ نعت میں تو محاسن ہی محاسن ہیں۔ میرا مقصد ہے کہ یہ سراسر عقیدت، محبت اور مؤدت ہے۔ نعت کے ضمن میں حضرت خواجہ علاء تبریزی کا شعر ہے: ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب ہنوز نامِ توگفتن کمال ہے ادبیست اگر میں ہزار بار بھی اپنا منہ مشک و گلاب کی خوشبوئوں سے دھو لوں پھر بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاکیزہ نام لینا بے ادبی ہو گا۔ یہ عشق کا مقام ہے۔ مدحت 416صفحات پر مشتمل بہترین کاغذ پر اشاعت پذیر ہوا ہے۔ ظاہر اس پورے شمارے پر لکھنا آسان نہیں۔ مجھے دیباچہ بھی اچھا لگا کہ کورونا سے متاثرہ سال کا تذکرہ مخصوص انداز میں کیا گیا اور پھر ہم سے بچھڑ جانے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ’’خورشید بیگ میلسی، اعجاز رحمانی، عمران نقوی، ڈاکٹر ذوالفقار تابش، بابا محمد یوسف ورک کی نعتیں اور علامہ خادم حسین رضوی کے لیے اپنی ایک نظم ان کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ اظہارئیے سے متصل کی ہے‘‘۔ خاص طور خالد طور پر خالد محمود نقشبندی کا گوشہ بہت اچھا لگا۔ میں اپنے پیارے قارئین کو بتا دوں کہ یہ وہی خالد محمود ہیں جن کی ایک نعت کو قدرت نے ہر زباں پر رواں کر دیا۔ میرا مطلب ہے خاص و عام میں یکساں مقبول ترین نعتوں میں: کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہو ئی ہے تجلیوں کے کفیل تم ہو، مراد قلبِ خلیل تم ہو خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے مدحت کے آخر میں سرور حسین نقشبندی نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی منقبت بھی شامل کی ہے جو ان کی اپنی فکر سے پھوٹی ہے: آنکھیںجھکی ہوئی ہیں مہ و آفتاب کی لکھنے لگا ہوں بات شہ بوتراب کی دے کر علیؓ کا واسطہ دیکھا ہے بارہا میرے خدا نے میری دعا مستجاب کی اب سوچتا ہوں کہ کیوں نہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے چند اشعار نقل کر دوں، پہلے اعجاز کنور راجا کی نعت کے اشعار دیکھیں: خط تنسیخ پھرے ان کی خطائوں پہ حضورؐ آپ آمین کہیں جن کی دعائوں پہ حضورؐ یہ الگ بات گنہ گار ہیں ہم آپؐ کے ہیں حق تو رکھتے ہیں ہرے پیڑ کی چھائوں پر حضورؐ ایک قطرہ ہی عطا کی جئیے شیرینیٔ لب پھول برسائے کنور تلخ نوائوں پہ حضورؐ ۔۔۔۔۔ اس طرح خود کو نعت کار کروں ان کے اسوئے کو اختیار کروں (ابوالحسن خاور) مدحتِ شاہِ دو عالم پر مقرر رکھا میرے مالک نے مرے بخت کو یاور رکھا (افتخار عارف) آخر میں نعتیہ شاعری کے مجدد حفیظ تائب کی دعائیہ نعت سے ایک شعر: دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ ایک شیریں جھلک ایک نوریں ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ