الیکشن کمیشن کے فیصلے کے چند پہلو عجیب وغریب، دلچسپ اور قابل بحث ہیں۔ یہ تینوں مختلف کیفیات ہیں مگرالا ماشااللہ اس فیصلے میں یہ تینوںشامل ہیں۔ 1:جلد بازی کیوں کی گئی؟ سب سے پہلی بات یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس قدر عجلت کی کیا ضرورت تھی؟ فیصلہ خاصے دنوں سے محفوظ تھا تو تین چار دن اور بھی ایسا کیا جا سکتا تھا؟پانچ رکنی الیکشن کمیشن ہے،پنجاب سے ایک رکن بیمار ہیں، کہا جا رہا ہے کہ انہیں ڈینگی ہوا ہے، اس لئے انہوں نے فیصلہ پر دستخط بھی نہیں کئے۔ سوال یہ پوچھنا بنتا ہے کہ آخر عزت مآب چیف الیکشن کمشنر صاحب کو اتنی جلدی کیا تھی کہ ڈینگی کے مریض رکن کے صحت یاب ہونے کا انتظار نہیں کیا۔ پانچ سات دن میں ڈینگی کا مریض بہتر ہوجاتا ہے، دس دنوں میںمکمل صحت یاب۔ایسی کیا آفت آ گئی تھی کہ الیکشن کمیشن مجبور ہوا کہ نہیں جمعہ کے روز ہی لازمی فیصلہ سنانا ہے؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جب پانچویں رکن دستخط کریں گے تب مکمل تحریری فیصلہ جاری ہوگا۔ تو یہ فیصلہ بھی پانچ سات دن بعدسنا دیا جاتا؟ کل ایسا کیوں کیا گیا؟کس نے یہ’’ حکمت ‘‘سجھائی کہ پانچویں رکن کے بغیر ہی جمعہ کو فیصلہ سنا دو؟ 2:جمعہ کو فیصلہ کیوں؟ سپریم کورٹ نے پچھلے سال ڈیڑھ میں اپنے کئی فیصلے جمعہ کو سنائے ۔ سپریم کورٹ کی مجبوری یہ ہے کہ پیر سے جمعرات تک انہوں نے روزانہ کئی کیسز کی سماعت کرنا ہوتی ہے۔ ویک اینڈ فیصلے لکھنے کے لئے مختص کیا جاتا ہے، اس لئے مختصر فیصلے اکثر جمعہ کی شام سنا دیئے جاتے ۔ الیکشن کمیشن نے کون سا روزانہ کیسز کی سماعت کرنا ہوتی ہے؟ انہیں جمعہ کو فیصلہ سنانے کا مشورہ کس نے دیا؟ کیا یہ ن لیگ کی جانب سے اپنی کئی برسوں والی فرسٹریشن نکالنے کی ایک کوشش تھی، جن کے لئے جمعہ کے دن والے عدالتی فیصلے مذاق بن گئے تھے ۔ اس کے سوا کوئی اور معقول وجہ ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ :3پانچ سالہ نااہلی نہیں، اونلی ڈی سیٹ یہ خبردانستہ چلوائی جاتی رہی کہ عمران خان کو پانچ سالہ مدت کے لئے نااہل کیا گیا۔ یہ ڈس انفارمیشن اور گمراہ کن خبر ہے۔ دراصل عمران خان ڈی سیٹ ہوئے ہیں، وہ میانوالی سے رکن قومی اسمبلی تھے ۔ وہ سیٹ اب ختم ہوگئی ۔ اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان وہ سیٹ چھ ماہ پہلے چھوڑ چکے ہیں، انہوں نے استعفا دے دیا، اگرچہ سپیکر نے استعفا ابھی منظور نہیں کیا، مگر عملاً عمران خان رکن قومی اسمبلی نہیں ۔ وہ چھ سیٹوں سے حال ہی میں جیتے ہیں، مگر حلف نہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں، اس لئے وہ رکن اسمبلی ہیں ہی نہیں تو انہیں ڈی سیٹ کرنا ایک علامتی سزا ہی سمجھنی چاہیے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ عمران خان پارٹی صدر بھی نہیں رہے اور اب شاہ محمود قریشی یا کوئی اور صدر بنے گا۔ یہ بھی ڈس انفارمیشن ہے۔ اس فیصلے میں ایسا کچھ نہیں۔ الیکشن کمیشن ایسا کر بھی نہیں سکتا۔نواز شریف کو تاحیات نااہل سپریم کورٹ نے کیا تھا اور صادق وامین نہ ہونے کا فیصلہ وہی عدالت کر سکتی ہے، اسی بنا پر نواز شریف کی پارٹی صدارت ختم کی گئی تھی۔ یہ الیکشن کمیشن نہیں کر سکتا۔ 4:فیصلے میں تضادات مختلف آزاد رائے رکھنے والے قانون دانوں کے خیال میں الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے میں کئی تضادات ہیں ۔ ن لیگی لیڈروں کے مختلف کیسز لڑنے والے ممتاز قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق یہ نہایت کمزور اور غلط فیصلہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو 63ون پی کے تحت فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں، اس کے تحت کسی رکن اسمبلی کو تب ڈی سیٹ کیا جاتا ہے جب کوئی عدالت اسے سزا سنا ئے اور پھراس شق کے مطابق ڈی سیٹ کیا جاتا ہے۔عمران کے معاملے میں ایسا ہوا ہی نہیں۔ بعض قانون دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب عمران خان رکن قومی اسمبلی رہے ہی نہیں، وہ مستعفی ہوگئے تو تب الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ہی ختم ہوگیا۔ الیکشن کمیشن ٹرائل کورٹ یا اعلیٰ عدالت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی شہری کے خلاف کوئی کیس سننا شروع کر دے۔ اس کا دائرہ کار الیکشن اور منتخب ارکان اسمبلی تک محدود ہے۔ عمران خان مستعفی ہوگئے تو اگر سپیکر نے بدنیتی کی بنا پر ریفرنس بھیج دیا تو چیف الیکشن کمشنر کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ عمران خان تو مستعفی ہوچکا ہے ، اس لئے اب اس ریفرنس کی ضرورت ہی نہیں۔ یاد رہے کہ یہ ریفرنس ڈی سیٹ کرنے کے لئے ہی بھیجا جاتا ہے۔ عمران خان کے وکیل علی ظفر نے فیصلے سے قبل جو پریس کانفرنس کی، اس میں ان کے دلائل خاصے مضبوط تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف سے حاصل کردہ آمدنی اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ علی ظفر کے مطابق واضح طور پر کہا گیا کہ پانچ کروڑ آمدنی ہوئی جبکہ تین کروڑ خرچ ہوا ۔ علی ظفر کے مطابق گوشواروں میں ہمیشہ یہ لکھا جاتا ہے کہ اتنا گولڈ ہے ، اتنا فرنیچر، اتنے دیگر اثاثے۔ کبھی یہ نہیں لکھا جاتا کہ گولڈ میں اتنی چوڑیاں، اتنے کڑے، انگوٹھی، کنگن وغیرہ ہیں اور فرنیچر میں اتنے صوفے، کرسیاں، الماریاں وغیرہ۔ عمران خان کے اثاثوں کا ذکر گوشواروں میں تھا اور الیکشن کمیشن کا اعتراض غلط رہا۔ 5 :فیصلے کے اثرات تکنیکی طور پر تین قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیاسی ، اخلاقی، قانونی ۔ اس فیصلے کے کچھ نہ کچھ قانونی اثرات بہرحال ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اس کا فیصلہ خلاف آئے تو مضمرات ہوں گے۔ اس پر اصل جنگ قانونی ہوگی، تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اچھے طریقے سے یہ جنگ لڑے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل ہوگی، اس کے بعد سپریم کورٹ کا فورم بھی موجود ہے۔ بظاہر فیصلے میں کمزوریاں اور تضادات ہیں ، بادی النظر میں یوں لگ رہا ہے کہ ہائی کورٹ ریلیف دے گی۔ بہرحال عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے قبل از وقت مفروضہ قائم نہیں کر سکتے۔ اخلاقی طور پر اس کے اثرات شائد اتنے گہرے نہ ہوں جتنے آل شریف اور آل زرداری کے خلاف عدالتی فیصلوں یا الزامات کے ہوئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے حوالے سے بہت کچھ سینہ گزٹ کے ذریعے چلتا رہا ہے۔ان پر کرپشن کے الزامات لگیں تو لوگ اسے درست مان لیتے ہیں، چاہے وہ رسمی طور پر عدالتوں سے ثابت ہوسکیں یا نہیں۔ عمران خان کا معاملہ ایسا نہیں۔ آج بھی اسے پی ڈی ایم کے قائدین اور سیاستدانوں سے زیادہ ایماندار اور بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے سیاسی اثرات اس لئے نہیں پڑیں گے کہ عمران خان نے اپنے سیاسی کارکن کو پہلے سے ہی تیار کر لیا تھا۔ تحریک انصاف کئی مہینوں سے الیکشن کمیشن کو مسلسل ٹارگٹ کر رہی ہے ، الیکشن کمیشن کے کئی فیصلے بھی متنازع رہے،الزام ہے کہ اس کا جھکائو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن اور حامیوں کے نزدیک یہ فیصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ن لیگ اور پی ڈی ایم کے دیگر لوگ البتہ اس پر خوب شور مچائیں گے، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز استعمال کرتے ہوئے وہ ایک خاص اینٹی عمران بیانیہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ عمران ہمیں چور کہتا تھا، اب خود چور ثابت ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو چوری کے الزام سے بری کرنے سے زیادہ انہیں اس میں دلچسپی ہے کہ عمران بھی ہماری طرح ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے مختلف سازشی تھیوریز بھی گردش کر رہی ہیں، ان کی تفصیل میں دانستہ نہیں جاتا کہ ایسی گپ شپ کی باتیں سوشل میڈیا تک ہی رہیں تو اچھا ہے۔ میرے نزدیک سیاسی بساط بھی شطرنج کی بساط کی طرح ہے۔ دونوں جانب سے مختلف چالیں چلی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کی چال کو جلد سمجھ کر اس کا توڑ کرنا اور جوابی چال چلنا۔ اسے بدقسمتی ہی کہیں کہ اس طرح کے فیصلے بھی اسی بساط پرکھیلی گئی چال (Move)کا حصہ ہی سمجھے جانے لگے ہیں۔ ویسے بھی جس فیصلے کا کئی ماہ پہلے حامیوں اور مخالفین دونوں کو اندازہ تھا، اس کے بارے میں کچھ بھی کہہ دیا جائے ، عام آدمی اسے مان لیتا ہے۔ حرف آخر یہ کہ اصل جنگ اعصاب کی ہے۔عمران خان کو بھی اب پتہ لگا ہوگا کہ بائیس چوبیس سالہ سیاست ایک طرف اور پچھلے چھ ماہ میں سیکھے جانے والے سیاسی سبق ان کے ماضی کے تمام تجربات پر حاوی ہیں۔دیکھنا اب یہ ہے کہ کون زیادہ ٹھنڈے دماغ سے سوچتا اور مخالف کی چالوں کا پہلے سے ادراک کر کے بھرپور جوابی چالیں چلتا اور پھر شہ مات کے مرحلے تک پہنچتا ہے؟ ٭٭٭