بظاہر ایک اندھے قتل نے ملکی سیاست میں آئی دراڑ کو مزید گہرا کردیا ہے۔ تحریک انصاف ،جس کے مرحوم نظریاتی طور پر خاصے قریب تھے، کا اس حکومت کو بزور بازوچلتا کرنے کا عزم مزید پختہ ہوا ہے۔عمران خان نے اس سانحے کو اپنی حکومت کے گرائے جانے کی امریکی سازش کا تسلسل قرار دیا۔ انہوں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے اسلام آباد مارچ، جس کا کہ وہ الیکشن کمیشن سے اپنی متنازعہ نااہلی کے تناظر میں ارادہ کررہے تھے، کا اعلان کردیا۔ لگتا نہیں کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ انہوں نے عوام کی حکمرانی کا نعرہ لگایا اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انکا سامنا کس سے ہے۔ دوسری طرف حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ عمران خان کے دبائو میں نہیں آئے گی اور یہ کہ حکومتی تبدیلی کا راستہ صرف اور صرف انتخابات ہیں جو اپنے مقررہ وقت پر، اگلے سال، ہونگے۔ دوسری طرف افواج پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنے آئینی کردار تک محدود رہے گی اور یہ کہ تحریک انصاف اس حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہوکر اسے بدنام کر رہی ہے۔ جمعرات کو ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے تحریک انصاف کے سارے بیانیے کو رد کردیا۔ مطلب، فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ ایف آئی اے کے ہاتھوں تحریک انصاف کے بیانیے کے حامی اے آر وائی نیوز چینل کے صحافی چوہدری غلام حسین کی گرفتاری نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ صحافی کے قتل کا معاملہ سیاسی رنگ پکڑ گیا ہے تو عدل کے تقاضے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ عدالتی کمیشن کا اعلان ہوا ہے لیکن نتائج کا انتطار کس کو ہے؟تحریک انصاف کا مارچ چار نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کا امکان ہے لیکن کیا خبر ایک ہفتے میں حالات کیا رخ اختیار کریں۔ حکومت مظلومیت کا لبادہ پہن چکی کہ عمران خان تبدیلی کے لیے آئینی راستہ اختیار نہیں کر رہے۔ جن درجن بھر پارٹیوں نے تحریک انصاف کی ایک پائوں پر کھڑی حکومت کو گرا کر اس بحران زدہ ملک کی ، چاہے اپنی کھال بچانے کے لیے، باگ ڈور سنبھالی تھی، وہ آرام سے اقتدار مخالف پارٹی کے حوالے تو نہیں کریں گے۔ پاک افواج نے سیاست میں مداخلت سے دور رہنے کا عندیہ دیا ہے، دیگر ادارے پہلے ہی متنازعہ بنائے جا چکے ہیں تو بیچ بچائو کی راہیں بھی مسدود ہیں۔ مطلب، فریقین تختہ اور تختہ کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ کسی کو رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ انتشار اور بد امنی ملکی سلامتی تک متاثر کرسکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ نو آبادیاتی دور کا معاشی ڈھانچہ ایک مخصوص طبقے کی فلاح سے آ گے نہیں دیکھ پاتا ، نہ ہی جمہوریت کو پھلنے پھولنے دیتا ہے اور نہ پائیدار معیشت کو۔ تین سو تینتیس خاندان اور ان کے غیر ملکی کاروباری اداروں سے گٹھ جوڑ کے سامنے عوام بے بس ہیں۔ ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اس نہج پر پہنچچکی ہے کہ اشیائے ضرورت ، جس میں اجناس نمایاں طور پر شامل ہیں، لوگوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔ بیشتر آبادی کو مناسب رہائشی سہولتوں اور صاف پانیمیسر نہیں تو بیماریوں کا بوجھ برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔ لاقانونیت اور دہشت گردی سوا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا کہ ملک اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں مار شل لا کے زیر اثر رہا ہے لیکن پچھلے چودہ سالہ جمہوری دور میں کون سا انقلاب آگیا ہے؟ آئین کی شق وار ترمیم کے بارہ سال بعد بھی بات صوبائی خود مختاری سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ چلیں جمہوریت کے استحکام کے لیے استعماری دور سے رائج معاشی اور معاشرتی اجارہ داریاں نہ ٹوٹتیں اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے نئے صوبے نہ بنتے، مقامی حکومتوں کے حوالے سے آئینی تقاضوں پر ہی عمل کرلیا جاتا تو قدرتی آفات اور بیماریوں سے نجات کا راستہ نکل سکتا تھا۔ جمہوریت کے احترام میں محصولاتی نظام تبدیل ہوسکتا تھا جو غریب سے اس کے منہ کا نوالہ تک چھین لیتا ہے اور مراعات کا رخ امیر طبقے کی طرف رکھتا ہے۔ محصولات کے لیے سارا انحصار درآمدات ، ٹیلیکام اور توانائی پر ہو تو نہ معیشت قرضوں کے دلدل سے نکل سکتی ہے اور نہ ہی عوامی فلاح کا کوئی راستہ نکلتا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ سیاست اور کاروبار دونوں پر قبضہ کرچکا ہے۔ جمہوریت، جس کا سارے کا سارا فائدہ اسی طبقے کوہی ہے، اس فائدے کی خاطر ہی ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کی کچھ تدبیر کرلیتا لیکن یہ الٹابحران کو ہوا دے رہا ہے۔ یوں سیاسی ناچاقی ، فطری نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔ ممکن ہے، ، لازمی نہیں، کہ کوئی غیر ملکی طاقت ملک کو انتشار کے دہانے دھکیلنے میں ملوث ہو۔ اشرافیہ بین الاقوامی مافیا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ جمہوریت، مذہب اور حب الوطنی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے طبقاتی مفادات کی آبیا ری کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کا تبدیلی کا بیانیہ بڑا جاندار ہے لیکن عملی طور پر اپنے دور اقتدار میں یہ معنی خیز تبدیلی نہ لاسکی۔ ایک تو اسکے پاس آئین سازی کے لیے عددی اکثریت نہیں تھی ، دوسرے، اس نے انتقامی سیاست کو اپنایا اور اس احتسابی ادارے پر انحصار کیا جو، عمران خان کے اپنے بقول، اسکے ہاتھ میں ہی نہیں تھا۔ بہتر تھا کہ وہ پارلیمان میں بیٹھی رہتی اور اور عوامی مفاد اور اپنے ایجنڈے کی روشنی میں آئینی ، معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحات پر کام کرتی۔ خیبر پختو اہ، پنجاب ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی۔ اب جب وہ اپنی کشتیاں جلاکر احتجاج کے راستے پر نکل ہی کھڑی ہوئی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مہنگائی کے ہاتھوں پٹی مشتعل عوام کو ریلیف دیتی ہے یا پھر ان پر ڈنڈے برساتی ہے۔ عمران خان کی حکمت عملی اس بحران کو اسکے منطقی انجام تک پہنچاتے دکھائی دیتی ہے توحکومت کا دانشمندانہ ر ویہ اس ملک کی نئی سمت کا تعین کرے گا۔