اسلام آباد (خبرنگار) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ بطور چیف جسٹس مجھ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آئین کی عملداری کرائیں،گورننس بہت پیچیدہ، مہنگی اور مشکل ہو چکی ہے ،پاکستان کے عوام مشکل حالات اور مسائل کا سامنا کر رہے ہیں،لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی، چھوٹی اور عام چیزیں جو حکومت کو کرنے چاہیے وہ نہیں کر رہی۔ سابق جج شبر رضا رضوی کی کتاب کی تقریب رو نمائی سے خطاب کر تے ہوئے انہو ں نے کہا کہ سڑکیں بنانا، لوگوں کو قانونی تعمیرات کر کے دینے تک کی بنیادی ذمہ داریاں حکومت پوری نہیں کر رہیں،حکومت کی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر عدالتوں پر بوجھ پڑ رہا ہے ۔سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھو سہ نے کہا کہ ملک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کے تجربے کیے گئے ، ملک میں سوشلزم، فری مارکیٹ، اسلامزم اور فلاحی ریاست کا تجربہ کیا گیا،ملک نے عدالتی نظام میں مختلف تجربے بھی دیکھے ، وقت بتائے گا کہ کون سا تجربہ سب سے زیادہ کامیاب رہا،ملک خوشحال تھا لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے یکسر حالات تبدیل ہو گئے ، ملک میں بھوک، افلاس اور خوف ہے ،اللہ کی نا شکری سے معاشرے میں مسائل جنم لیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ ملک میں چار پانچ بڑے مسائل ہیں جن کو سمجھ کر مشاورت کر کے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلا مسئلہ ہے کہ اسلام کو گورننس پیراڈائم میں کہاں رکھا جائے ؟ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کا مذہبی فراہمی میں کیا کردار ہونا چاہیے ،اپوزیشن ہمیشہ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگاتی ہے ، اپوزیشن حکومت میں آئے تو وہی الزامات ان پر لگتے ہیں۔جب تک شفافیت اور احتساب نہیں ہوگا کوئی حکومت سکون سے نہیں چل سکتی ۔ ایک وکیل کیخلاف پرچہ ہو تو پورے ملک میں ہڑتال ہو جاتی ہے ایک سابق فوجی کو خصوصی عدالت سے سزا ہوئی تو فوج نے ٹی وی پر کہا کہ ہم رنجیدہ ہیں، فوجی ترجمان کے مطابق پاک فوج ایک فیملی ہے یہ خطرناک رجحان ہے اس کا سدباب نہ ہوا تو نتائج سنگین ہونگے ۔تقریب سے خطاب کر تے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ملک دو لخت ہوا تو ملک میں متفقہ آئین نہیں تھا،جوڈیشل کمیشن میں فیصلے جمہوری روایات کے مطابق کئے جاتے ہیں،وہ لمحہ ناقابل فراموش تھا جب جوڈیشل کمیشن نے پہلی خاتون جج کی سپریم کورٹ تعیناتی کی سفارش کی۔سابق جج شبر ضا رضوی نے مقررین کا شکریہ ادا کیا۔