اسلام آباد (خبر نگار) سپریم کورٹ نے نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ مجریہ 2022کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین سے حتمی دلائل طلب کرلئے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے چیئر مین پی ٹی آئی کی آئینی درخواست کی مزید سماعت 28اگست تک ملتوی کردی اور آبزرویشن دی کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے کیس کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا سوال اٹھایا اور معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دی اور کہا کہ عدالت پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کا فیصلہ کرے یا پھر اس کیس کے لیے فل کورٹ تشکیل دے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فوجی عدالتوں سے متعلق کیس میں اپنے الگ نوٹ کا حوالہ دیا اور ریما رکس دیے کہ اسپیشل کورٹس سے متعلق مقدمے میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویزدی تھی میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے ، آج بھی چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم کیس فل کورٹ سنے ،اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ یہ کیس 2022 سے زیر التواہے ، ضروری نہیں کیس کے میرٹس پر فیصلہ دیں، نیب ترامیم کیخلاف دائر کی گئی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی فیصلہ دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2023میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا، کیس کو نمٹانا چاہتے ہیں کیونکہ بنچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ قریب ہے ، یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے ، مجھے ہرصورت فیصلہ دینا ہو گا، اگر فیصلہ نہ دے سکا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہو گا۔عدالت نے خواجہ حارث کے معاون کی استدعا منظور کرتے ہوئے انھیں پیش ہونے کی اجازت دیدی جبکہ حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کومعاونت کی ہدایت کی۔ مخدوم علی خان نے بھی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا نکتہ اٹھایا اور کہا کہ عدالت نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے کی حد تک یہ کیس سن سکتی ہے ، میں اس معاملے میں جسٹس منصور علی شاہ کے نکتے سے متفق ہوں، اس نکتے پر عدالت کی معاونت تیاری کے بعد کر سکوں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ کوئی اتنا منفرد اور خاص کیس ہے کہ قانون کو نظر انداز کرکے اسے سنیں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہرکیس کے اپنے حقائق اورمیرٹس ہوتے ہیں ، ایک کیس میں دی جانے والی رائے صرف اسی کیس کیلئے ہوتی ہے اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل مخدوم علی خان کو کہا کہ معاونت کریں کہ کیسے یہی بینچ یہ کیس سن سکتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں، 28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے ۔ چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصورشاہ کے اٹھائے گئے سوالات پرتیاری کرکے آئیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصول واضح ہے اختلاف رائے آنے پرفیصلہ اکثریت کاہوتا ہے ، ابتک 22 سماعتوں پردرخواست گزاراور19 سماعتوں پروفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دئیے ، یہ کیس اتنا لمبا نہیں تھا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیس میں پہلے دن سے پوچھ رہا کہ کونسے بنیادی حقوق متاثرہوئے ہیں لیکن 47 سماعتوں سے ابتک نہیں بتایاگیا کوئی بنیادی حقوق متاثرہوا ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے مخدوم علی سے استفسار کیا کہ آپ میرٹ پردلائل دینے سے کیوں کترا رہے ہیں؟ آپ سماعت سے نکلنے کی کوشش کیوں کررہے ہیں ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ میرٹ پر دلائل دینے سے نہیں کترا رہا، عدالت کا اختیارہے کہ معاملے کے قابل سماعت ہونے کے بارے میرا موقف تسلیم کرے یا مسترد ۔کیس کی مزید سماعت 28اگست کو ہوگی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 جاری کرنے کے لیے دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے ۔چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ 22 اگست کو کیس کی سماعت کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ۔ براڈ شیٹ کمپنی نے جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 حاصل کرنے کیلئے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کی غیر ملکی جائیدادوں کی تلاش میں نیب کی معاونت کی لیکن نیب نے جائیدادوں کی تلاش کا معاوضہ ادا نہیں کیا۔ براڈ شیٹ نے پاناما جے آئی ٹی کا والیم 10 فراہم کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔ سپریم کورٹ نے مریم نواز شریف، رانا ثنائاللہ اور احد چیمہ کی ضمانت کی ضمانت منسوخی کی درخواستیں جبکہ 2014میں قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے استعفوں کا معاملہ سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 اگست کو مریم نواز ، 23 اگست کو رانا ثنائاللہ اور 25اگست کو احد چیمہ کی ضمانت منسوخی کی درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ سپریم کورٹ میں مریم نواز کی ضمانت منسوخی کی درخواست تقریباً چار سال بعد سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے ۔دریں اثنا پی ٹی آئی کے استعفوں کے معاملے پر درخواست پرچیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ 21 اگست کو سماعت کرے گا۔