یہ جو ایک صبح کا ستارا ہے
دن نکلنے کا استعارا ہے
اس کو بھولا ہوا ہوں مدت سے
جو مرا آخری سہارا ہے
مظاہر فظرت اللہ کی کھلی نشانیاں ہیں۔ اچھے موسموں کی آس میں کون نہیں ہوتا یہ ایک الگ بات کہ ہم حبس کے موسم سے گزر رہے ہیں ایسا حبس کہ جوش یاد آتے ہیں وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ ،لیکن جہاں لوگ اچھی خبر کو ترس گئے تھے کہ پے درپے پٹرول مہنگا ہوا اور پھر بجلی کے جھٹکے لوگ مہنگائی کے بوجھ تلے کرا رہے ہیں ایسے میں یہ خوشخبری کہ حکومت
جمعرات 14 جولائی 2022ء
مزید پڑھیے
سعد الله شاہ
بلوچستان کی آواز
بدھ 13 جولائی 2022ءسعد الله شاہ
کسی نے یاد رکھا کب سبھی کچھ ہی
چلو ہم بھول جائیں اب سبھی کچھ ہی
اسے کھونے کی قیمت ہے میں جو کچھ ہوں
اسے کھویا تو پایا تب سبھی کچھ ہی
مگر حقیقت کی طرف آیا تو معلوم ہوا سب زندگی کے واہمے تھے وگرنہ بات تو کچھ اور ہے۔ ’’نہ جانے سعد پھرتا ہوں میں در در۔اسے پانے کا مطلب جب سبھی کچھ ہی۔ اقبال نے بھی تو کہا تھا وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔مجھے یہ سب کچھ اس لئے بیان کرنا پڑا کہ بلوچستان سے آئی ہوئی ایک خاتون
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
وقت الٹ دے نہ بساط ہستی
منگل 05 جولائی 2022ءسعد الله شاہ
اپنی طرف سے بھی تو اشارہ نہیں ملا
خواہش کا پھول دل میں دوبارہ نہیں کھلا
ہوتا نہیں ہے ایسے فقط اتفاق ہے
اس چارہ گر سے زخم ہمارا نہیں سلا
سخن وری میں تدریسی بات کوئی اچھی بات نہیں مگر شعر کے محاسن پر تو بات ہو سکتی ہے۔ ایسے ہی دل چاہا کہ بتا دوں کہ اس غزل میں دو دو قافیے استعمال ہوئے ہیں جیسے شعر ذوبحریں بھی ہوتا ہے آپ خود ہی دیکھ لیں لہروں کی واپسی سے یہ دھوکہ ہوا ہمیں اپنی جگہ سے کوئی کنارا نہیں ہلا تو بھی تو جانتی ہے کہ خوابوںمیں کچھ نہیں اے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
اک ذرا انتظار
پیر 04 جولائی 2022ءسعد الله شاہ
تم نے جگہ جگہ پہ مجھے بدگماں کیا
اپنا نشاں بنا کے مجھے بے نشاں کیا
خاموش جب رہا ہوں تو گویا رہا ہوں میں
تم نے زبان دے کے مجھے بے زباں کیا
اس کے ساتھ ہی ایک خیال رومانس کا کہ دل تھا دھڑکنے لگ گیا تیروں کے خوف سے، ابرو کو تونے جونہی ذرا سا کماں کیا اور پھر ،کتنے ہی سانپ آ گئے پھر رینگتے ہوئے، اک فاختہ نے پیڑ پر کیا آشیاں کیا۔ یہ سب زندگی کے رنگ اور رویے ہیں اور یہی انداز وادا ہے کہ ایک بو قلموئی پیدا کرتی ہے لیکن جب مقصد حیات نہ رہے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
گرانی کا مثبت پہلو
اتوار 03 جولائی 2022ءسعد الله شاہ
کسی کے واسطے اچھی کسی کے حق میں بُری
چلی ہوا تو مرے راستے میں گرد اُڑی
اسی عتبار سے پیدا ہوئی میری صورت
یہی کہیں سے اٹھی ہے ہماری خوش بختی
اور پھر اسے جلانے کا فن تو ہمیں بھی آتا ہے مگر یہ بات کہ چاہت میں اتنی بے ادبی۔یہ بے ادبی ہم سے نہیں ہوتی ویسے بھی تحریر کوئی ٹاک شو تو ہے نہیں۔ بات ہم مثبت ہی کریں گے وہی کہ ’’تو تو ہمارے شعر کے ظاہر پہ مر گیا رنج و ملال کیا تجھے سوزو گداز گیا‘‘ یہ الگ بات کر غالب جیسا شخص بھی کہہ اٹھتا ہے فکر
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
کوئی راہ نکالی جائے
هفته 02 جولائی 2022ءسعد الله شاہ
رواں اس آنکھ سے اشکوں کا ایک دریا ہے
کسی نے دل پہ تسلی کا ہاتھ رکھا ہے
ستارا وار چمکنے لگی ہیں یہ آنکھیں
اداس شام کے پہلو سے چاند نکلا ہے
آپ ان اشعار کو موجوہ پس منظر سے بالکل نہ جوڑیے گا بلکہ چار سال قبل ضرور ایسے احساس نے دامن پکڑا تھا مگر ہماری آگ سے کندن نہ بن سکا سونا۔ہماری آہ سے پتھر تو ایک پگھلا تھا۔پھر ایک خدشے نے انگڑائی لی میرے کے ساتھ ہی بادل بکھر نہ جائیں کہیں ۔ مگر امید پر سارا جہان بیٹھا ہے ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا ہم گھبرائے نہیں مگر اس
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
مشاعرہ اور امین ملک کی برسی
جمعرات 30 جون 2022ءسعد الله شاہ
کس پہ کیسے کوئی اعتبار کر کے چلے
بڑھے عدو بھی جو ملنے کو وار کر کے چلے
ہمارا کیا ہے بھٹکتے پھریں گے راہوں میں
مگر ارادہ منزل کو یار کر کے چلے
شعر دیکھیے ،بچے وہی تھے بچاتے جو دوسروں کو رہے وہ مگر تھے جو دریا کویار کر کے چلے ۔مواقع ہم کو میسر ہزار ہیں مگر جو سعد دنوں کو شمار کر کے چلے۔واقعی زندگی اختر شماری کا نام نہیں۔زندگی میں کچھ نہ کچھ ہلچل تو رہنی چاہیے وگرنہ ٹھہرے پانیوں کی طرح انسان پر کائی جم جاتی ہے۔مشہور ہے بیکار مباش کچھ کیا کر، بخیہ ادھیڑ کر ہی سیا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہم سے مقصد نظرانداز ہوا
منگل 28 جون 2022ءسعد الله شاہ
پھول خوشبو کو ہوا میں ذرا گہرا لکھنا
سات رنگوں میں کبھی اس کا سراپا لکھنا
تتلیاں رنگ لئے پھرتی ہیں چاروں جانب
کتنا مشکل ہے بہاروں کا قصیدہ لکھنا
آج میرا دل چاہتاہے کہ سبزہ و گل کی طرف توجہ کی جائے۔فطرت سے ہم آہنگی پر بات کروں میں بھی علی الصبح بیدار ہونے والوں میں ہوں۔طالب علمی کے دنوں میں بھی فجر کی نماز سے پہلے مطالعہ کرتا تھا یہ شب خیزی یا سحر کاہی کا مقصد سمجھنے کی ضرورت ہے اس میں جگراتا نہیں ہے کہ اللہ نے دن کسب معاش کے لئے بنایا ہے اور رات آرام کے لئے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
انتشار سے بچنے کی ضرورت ہے
پیر 27 جون 2022ءسعد الله شاہ
مشکلیں حائل ہیں کتنی پھر گماں کی راہ میں
خوف اگتا جا رہا ہے پھر اماں کی راہ میں
ہے بلندی ہر جگہ وہ چند قدموں پر نہیں
اور پہاڑی سلسلہ ہے اس دکان کی راہ میں
کیا کیا جائے وقت کیسے رک سکے گا۔ سوچتا رہتا ہوں میں، وقت مگر بہت کچھ پیچھے چھوڑ کر آگے گزر جاتا ہے۔ شیلے نے تو وقت کو سمندر کہا تھا جس میںکیا کچھ سما چکا ہے مگر وہ پھر بھی بھوکے شیر کی طرح غراتا رہتا ہے اس کی لہریں اس کے سال اور مہینے ہیں مگر اب کے تو وقت اتنا بے برکت ہو چکا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
صبح طرب کے ساتھ ہی شام الم بھی ہے
اتوار 26 جون 2022ءسعد الله شاہ
ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا غم بھی ہے
صبح طرب کے ساتھ ہی شام الم بھی ہے
ٹھہرو نہیں چلیں گے برابر اسی طرح
سر میں ہے اپنے عزم تو پیروں میں دم بھی ہے
زندگی کو تو کھینچنا ہی پڑے گا کہ یہ ایک گاڑی کی طرح جسے ہم کھینچ رہے ہیں اور اس پر مسلسل بوجھ پڑ رہا ہے، واقعات و حادثات کا ایک خیال اور بھی ہے ’ہیں زندگی کے راستے خم دار ہر طرف‘اس سے سوا خیال میں زلفوں کا خم بھی ہے۔ بہرحال اک عجب کشمکش کا عالم ہے جو خوشی ہے مری وہی غم بھی ہے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے