Common frontend top

سعد الله شاہ


ہاتھی کی لاعلمی


اس سے پہلے تو کسی سے نہیں پوچھا تیرا اب ترے نام پر کیوں برپا ہے ہنگامہ سا آزمانا ہے جو خود کو تو اتر جا مجھ میں اس سمندر کا نہ اندازہ کناروں سے لگا ہاں مگر اپنی طرف خود بھی دیکھ لیں تو حقیقت منکشف ہو جاتی ہے سعدؔ لوگوں سے یہ نفرت نہیں اچھی تیری۔ تو کبھی غور تو کر ہے کوئی تجھ سے بھی برا۔کیا برا اور کیا بھلا! میں جانتا ہوں کہ دنیا برا ہی کہتی ہے مگر جب اس نے کہا ہے تو میں برا ہوں ناں! شعر فہمی آسان نہیں کہ کچھ باتیں ان کہی چھوڑ دی
هفته 20  اگست 2022ء مزید پڑھیے

دھند لپٹی جو آکے شعلے سے

جمعه 19  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
برابر گھورتے رہنا خلائوں میں ہمارا کام ہے اڑنا ہوائوں میں کہیں سے ٹوٹ آئے گا ستارا بھی کہ ہم نے آنکھ رکھی ہے دعائوں میں ہائے ہائے کیا لکھیں’’بہت ہی زور سے ٹوٹے ہیں سعدؔ اب کے۔کہ ہم محفوظ رہتے تھے انائوں میں‘‘یہاں کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔مجھے پنجابی محاورہ استعمال کرنے میں تامل ہو رہا ہے مگر جو بلاغت اس میں کسی اور نہیں کہ ’’لچا سب تو اچا‘‘ وہی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور لاٹھی بھی تو اسی کی ہے جو طاقتور ہے۔ ویسے طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے جو کمزوروں پر چلتی ہے۔ جیسے بڑے
مزید پڑھیے


رنگ کو نور کو باندھے رکھنا

جمعرات 18  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
یہ جو اک صبح کا ستارا ہے دن نکلنے کا استعارا ہے لوگ دل سے نہ کیوں لگائیں ہمیں ہم نے غم شعر میں اتارا ہے پھر ساتھ یہ بھی خیال آتا ہے کہ، اس کو بھولا ہوا ہوں مدت سے۔جو مرا آخری سہارا ہے۔ خیر بات تو مجھے آج کرنی ہے شاعری کی کہ اس کی نموکہاں سے ہوتی ہے کہ میر نے کہا تھا ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے، دردو غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا۔ذہن کی ڈائری کا ایک ورق اس وقت کھلا جب میرے ہاتھ میں ایک شعری مجموعہ’’ کہاں گمان میں تھا‘‘
مزید پڑھیے


شہباز‘ عمران کا راستہ صاف کر رہے ہیں

بدھ 17  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
وہ طبیعت کہاں بہل جائے وصل سے اور جو مچل جائے یہ بھی رکھا ہے دھیان میں ہم نے وہ اچانک اگر بدل جائے پھر اس میں ایک رومانوی شعر ضروری ہے کہ کتنا نازک ہے وہ پری پیکر۔ جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے۔ تو صاحبو! ہمارا تو دل جل گیا ہے سارے رومانس دھرے کے دھرے رہ گئے کہ یہ سوچ کر سوئے تھے کہ پٹرول اٹھارہ روپے سستا ہو گا صبح پٹرول ڈلوائیں گے۔ خدا کی پناہ حکومت کا اتنا بڑا یوٹرن اور تو اور وہ قطعہ جو میں نے حکومت کو داد دیتے ہوئے لکھا تھا وہ چھپا
مزید پڑھیے


14اگست پر نائیس ویلفیئر کا پروگرام

منگل 16  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
سنگ ریزوں کو مہرو ماہ کیا دل خرابے کو خانقاہ کیا ہم بھی وحشت میں فرق کر نہ سکے عشق ہم نے بھی بے پناہ کیا بات یہ ہے کہ شعر جتنا سادہ اور سہل ہو گا وہ پایاب پانیوں کی طرح ہوتا ہے آسانی سے سمجھ میںنہیں آتا۔بعض اوقات اس کے پیچھے پورا فلسفہ ہوتا ہے۔اب اس عہد میں لوگوں کو وحشت کا بھی نہیں پتہ تو کیا کریں حالانکہ یہ بیماری بہت عام ہے۔ عشق کا تو خیر اب رواج ہی نہیں یا حوصلہ ہی نہیں یہ تو ایک منصب ہے اور وہ بھی بہت اعزاز کا۔پھر مجھے غالب یاد آتے ہیں
مزید پڑھیے



دل دل پاکستان اور شرمیلا فاروقی

اتوار 14  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
الٹی طرف بہائو کے نیّا کئے ہوئے اتریں گے پار ہم ہیں تہیّہ کیے ہوئے ہم جانتے ہیں لیکن ابھی بولتے نہیں کچھ لوگ کیوں ہیں نرم رویہ کیے ہوئے ایک شعر اور کہ اس میں نکتہ معترضہ بھی ہے۔ ’’حیرت ہے ہم جو موت سے ڈرتے ہیں اس قدر اس زندگی کو بھی المیّہ کئے ہوئے‘‘۔ چلیے اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ ہمارے صدر پاکستان عارف علوی نے آخر صلح صفائی کی بات کر دی ہے پہلے ایک دلچسپ مگر حقیقی واقعہ انتہائی ضروری ہے۔بچپن کا واقعہ ہے کہ دادی جان بیٹھے روٹی پکا رہے تھے کہ میری چچی یعنی ان
مزید پڑھیے


ہوں ختم نفرتوں کے یہ دن رات اے خدا

هفته 13  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی وہاں سچ مچ کے دل رکھے گئے تھے وہاں جذبوں کی ارزانی نہیں تھی میں کسی اور دنیا کی بات کرنا چاہتا ہوں جہاں حیرت نے ان ہونیوں کے در کھولے ’’حافظ و غالب و اقبال سے صحبت ہے ہمیں۔ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں‘ اس عمد میں جہاں سیاست اور معاشرت اتنی مکدر ہو گئی ہے کہ دم گھٹتا ہے کوئی حوالہ نہیں دوں گا کہ مجھے جگر کے بقول یہی کہنا ہے کہ جن کا یہ کام وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے اور
مزید پڑھیے


فلسفہ شہادت امام حسینؓ

جمعرات 11  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
بات ساری یہ سعادت کی ہے میں نے اس گھر سے محبت کی ہے میں کہاں اور کہاں مدح حسینؓ یوں سمجھ لو کہ جسارت کی ہے ذکر حسینؓ تو ایک شرف ہے ’’گھر کا گھر اور شہادت کی نماز‘ اس طرح کس نے امامت کی ہے۔اس نے سجدے میں کٹا دی گردن۔اس نے دراصل عبادت کی ہے۔سعدؔ حق بات کہی ہے یعنی میں نے نسبت کی حفاظت کی ہے۔میں جس تقریب سعید کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں وہ فلسفہ شہادت پر منعقد کی گئی تھی اور اس فلسفہ شہادت کے مرکز و محور یقینا حضرت امام حسینؓ ہیں ۔اقبال نے تو قدم
مزید پڑھیے


آہ !ڈاکٹر اختر شمار

منگل 09  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
اس کے دل میں نظم بھی تھی اور تھا اک افسانہ بھی سامنے اس کے شمع تھی روشن اجلا ہوا پروانہ بھی بچھڑا ہے وہ ہم سے لیکن اک احساس تو زندہ ہے ایک صدا سی پیدا ہوئی اور ٹوٹ گیا پیمانہ بھی غزل کے چند اشعار جو میں نے ایک بچھڑ جانے والے فنکار دوست کے حوالے سے لکھے تھے تو ڈاکٹر اختر شمار کی رحلت پر اچانک یاد آئے۔ اختر شمار کئی حوالوں سے ہمارے ساتھ جڑا ہوا تھا، ہم جولیوں کی طرح تھے تقریباً ایک ہی عمر کے لوگ۔ اس سے پہلے تو میں محترم قائم نقوی کے حوالے سے لکھنے
مزید پڑھیے


مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا!

بدھ 03  اگست 2022ء
سعد الله شاہ
ہم نے کہانی بدل کے دیکھی کر کے نئی پرانی اپنے ہاتھوں قتل ہوئے پھر اک راجہ اک رانی یہ طاقت کی بات ہے ساری جس کے ہاتھ بھی آئے ہم نے عقل سے کام لیا تو دل نے ایک نہ مانی ویسے ایک پتے کی بات بتادوں کہ کہتے ہیں جب فطرت سب سب کی بدل نہیں سکتی ہے۔ کیوں پھر ہر انسان کی فطرت ہوتی نہیں انسانی، ویسے فطرت کے اختلاف ہی سے ساریبو باس اور رنگ ڈھنگ ہے یعنی دنیا کی بو قلمونی۔ یہ الگ بات کے اقبال نے ہماری توجہ کسی اور طرف کردی کہ وجود زن سے ہے تصویر
مزید پڑھیے








اہم خبریں