Common frontend top

مستنصر حسین تارڑ


’’جادوئی کچھوا اور ’’ٹمپل آف لٹریچر‘‘


میں نے اپنے سفر نامے ’’نیو یارک کے سوانگ‘‘ میں اس شہر کی ایک پہچان درج کی ہے اور وہ ہے ایک نیکر اور بلائوز میں ملبوس جوگنگ کرتی لڑکی جس کی پونی ٹیل اس کی گردن پر ایک گلہری کی مانند اچھلتی چلی جاتی ہے۔ یہ لڑکی پورے نیو یارک میں پائی جاتی ہے صرف سنٹرل پارک میں ہی نہیں‘ ففتھ ایونیو کے فٹ پاتھ پر ‘نیو یارک پبلک لائبریری کے سامنے جو گلی ہے جس کے فٹ پاتھ میں شاعروں اور ادیبوں کی بے مثال شاعری اور نثر کے نمونے آہنی پلیٹوں پر کنندہ اورثبت ہیں یہ لڑکی
اتوار 19  اگست 2018ء مزید پڑھیے

’’ہوچی منہہ کی لاش کے ساتھ مکالمہ‘‘

بدھ 15  اگست 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
نیم تاریک ہال کے درمیان میں شیشے کے صندوق میں ہوچی منہہ کی حنوط شدہ لاش پڑی تھی۔ اب بھی فوجی وردی میں ملبوس کہ ان امریکیوں کا کیا پتہ اور خاص طور پر ٹرمپ کا کیا پتہ کہ اسے یکدم یاد آ جائے کہ اوہو ان ویت نامیوں نے امریکہ کو سب سے بڑی شکست سے دوچار کیا تھا‘ دنیا بھر میں ذلیل کر کے رکھ دیا تھا تو چلو ان سے بدلہ لیتے ہیں‘ پھر سے ویت نام پر حملہ کر دیتے ہیں، چنانچہ ہوچی منہہ فوجی وردی میں اس لیے ملبوس تھا کہ طبل جنگ بجتے ہی
مزید پڑھیے


’’سرخ سلطنت ۔ایک ٹینک اور جَل پریاں‘‘

اتوار 12  اگست 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
ویت نام دریائے سرخ کی سرزمین تھی۔ یعنی سُرخ سلطنت کا دریا بھی سُرخ تھا۔ ہنوئی کے بہت ہی عالی شان ایئر پورٹ کے باہر سمیر کی سیاہ لینڈ کروزر کے اندر ہم دونوں کی آمد کے منتظر دو پیارے پیارے پانڈے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ یاشار اور طلحہ اپنے دادا اور دادی کو دیکھ دیکھ کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور جب ہم نے ایک مدت کے بعد اپنے پوتوں کو دیکھا تو ہم بھی مسرت سے مغلوب ہو کر دو بوڑھے پانڈے ہو گئے۔ ایک دادا پانڈا اور دوسری سفید بالوں والی دادی پانڈی۔ ابا جی کہا
مزید پڑھیے


’’ویت نام‘ تیرے نام‘‘

بدھ 08  اگست 2018ء
مستنصر حسین تارڑ

’’یہ زندگی صرف ایک پھول کو جھک کر دیکھنے‘ اس پر غور کرنے کے لیے ناکافی ہے اور یہ دنیا تو بہت بڑی ہے‘‘ زندگی ناکافی ہے‘ دیوسائی کے ایک پھول ایک بادل‘ ایک ریچھ کو دیکھنے کے لیے بھی‘ اس سے پیشتر مجھے کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ یہ زندگی یہ دنیا دیکھنے کے لیے ناکافی ہے، بہت مختصر ہے۔ اس کا احساس شدت سے مجھے پچھلے دنوں ہوا جب میں ویت نام گیا۔ ویت قبائل کا ملک۔ میری آوراگی کی خواہشوں کی کسی کتاب میں ویت نام کا نام نہ تھا۔ اگرچہ امریکہ کے خلاف ویت نام
مزید پڑھیے


’’خدائی مخلوق‘‘…اور اُس گھر میں جمائما کیسے رہتی تھی

اتوار 05  اگست 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
یہ ان دنوں کے قصے ہیں جب عمران خان کا شوکت خانم ہسپتال زیر تعمیر تھا اور وہ دنیا بھر میں فنڈ ریزنگ ڈنر اور کانسرٹ کر رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسے ڈنر بھی ہوئے جن میں خواتین نے اپنے زیور اتار کر عمران خان کی جانب اچھال دیے۔ اس مہم میں نہ صرف مشہور راک سنگر مائک جیگر شامل تھا بلکہ نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی گائیکی اس کے لیے وقف کر دی۔ انہی زمانوںمیں دلدار پرویز بھٹی اس کے ایک شو کی میزبانی کرنے کے لیے نیو یارک گیا اور دماغ کی رگ
مزید پڑھیے



’’صبح کی نشریات میں مہمان، عمران خان‘‘

بدھ 01  اگست 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
دو ایسے مواقع ہوتے ہیں، جب ہمارے کالم نگار کھل کھیلتے ہیں، جوبن پر آ جاتے ہیں۔ ایک جب کوئی نامور ادیب یا کوئی اور مشہور ہستی دنیا سے رخصت ہوتی ہے تب چند آہیں بھرنے کے بعد آنکھ میں نہ آئی ہوئی نمی پونچھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ ادیب تو ان کا عزیز ترین دوست تھا، وہ ان فرضی ملاقاتوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے غمگین ہوتے ہیں۔ ہر ملاقات کے مکالمے ان کو منہ زبانی یاد ہوتے ہیں اور ان مکالموں میں کالم نگار کی شاعری، ادب اور شخصیت کی جو توصیف انتقال کر جانے
مزید پڑھیے


’’انوکھا لاڈلا۔کھیلن کو مانگے چاند رے‘‘

اتوار 29 جولائی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
گرمیوں کے حبس آلود موسم تھے۔ ہوا ٹھہری ہوئی تھی اور ہمارے اوپر جو آسمان کا گنبد قوس ہوتا تھا اس میں دمکتے ستارے بھی ٹھہرے ہوئے تھے میں شائد پانچ برس کا تھا۔ اپنے ابا جی کے پہلو میں چارپائی پر لیٹا ایک بچے کی حیرت سے ستاروں کو تکتاجاتا تھا۔ وہ میری سحر زدہ آنکھوں میں اترتے جاتے تھے۔ جب میں نے کہا ’’ابا جی۔ کیا یہ ستارے میری مٹھی میں آ سکتے ہیں کیا میں انہیں حاصل کر سکتا ہوں؟‘‘تو انہوں نے جو کہا وہ میرے تقریباً اسی برس کے ضبط شدہ دماغ میں ابھی تک نقش
مزید پڑھیے


آج الیکشن ہے

بدھ 25 جولائی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
جیسے مجید امجد نے کہا تھا کہ برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں، شہر میونخ میں آج کرسمس ہے تو ان اثر انگیز مصرعوں کا ستیا ناس کرنا ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دل دھڑکتے ہیں، ڈھول بجتے ہیں، شہر لاہور میں آج الیکشن ہے۔ صرف لاہور میں ہی نہیں ملک پاکستان میں آج الیکشن ہے۔ ابتدائے عشق میں ہم ساری رات جاگے، اللہ جانے کیا ہوگا آگے، مولا جانے کیا ہوگا آگے، ہم نہیں جانتے کہ کیا ہو گا آگے، جو بھی ہو اللہ کرے، مولا کرے کہ وہ پاکستان کے شجر کی جڑیں مضبوط کرے جو
مزید پڑھیے


’’سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے‘‘

اتوار 22 جولائی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
ہم کھنڈروں کے درمیان جو اونچے نیچے راستے تھے ان سے اتر کر ایک مختصر ویرانے میں اترے جہاں جھاڑ جھنکار کی اوٹ میں کچھ قدیم قبروں کے آثار تھے گڑھے تھے اور وہ مختصر سا ٹیلہ تھا جس کی جانب ہمارا گائیڈ ہم سیاح بھیڑوں کو ایک گڈریے کی مانند ہانکتا لے جاتا تھا اور واقعی وہاں جو کچا ٹیلہ تھا اس کی مٹی میں سے جگہ جگہ کل کے ٹوٹ چکے گوبلٹس یا شراب کے جاموں کی ٹھیکریاں ٹوٹ چکی پسلیوں کی مانند ابھرتی تھیں۔ کہیں کسی مٹی سے بنے ہوئے جام کے کنارے کہیں کوئی پیندہ اور
مزید پڑھیے


‘‘وادی سندھ کی تہذیب ‘ نہیں!ہڑپہ کی تہذیب‘‘

بدھ 18 جولائی 2018ء
مستنصر حسین تارڑ
تو بات موہنجو داڑو کے کھنڈروں میں سے برآمد ہونیوالے ’’گرینڈ پریسٹ‘‘ کے کھمبے کی ہو رہی تھی جس نے اپنے شانوں پر سندھی اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ اجرک اور سندھی ٹوپی سندھ کی ثقافت اور قدیم رہن سہن کی ترجمان ہیں اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے سندھی ٹوپی پہنی ہو اور وہ اچھا لگا ہو۔ سر پچکا ہوا سا لگتا ہے اور اس کے باوجود سندھی اپنی ٹوپی کی شان میں خصوصی دن مناتے ہیں اور میں یہ بھی ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں نے آج تک
مزید پڑھیے








اہم خبریں