ہم کھنڈروں کے درمیان جو اونچے نیچے راستے تھے ان سے اتر کر ایک مختصر ویرانے میں اترے جہاں جھاڑ جھنکار کی اوٹ میں کچھ قدیم قبروں کے آثار تھے گڑھے تھے اور وہ مختصر سا ٹیلہ تھا جس کی جانب ہمارا گائیڈ ہم سیاح بھیڑوں کو ایک گڈریے کی مانند ہانکتا لے جاتا تھا اور واقعی وہاں جو کچا ٹیلہ تھا اس کی مٹی میں سے جگہ جگہ کل کے ٹوٹ چکے گوبلٹس یا شراب کے جاموں کی ٹھیکریاں ٹوٹ چکی پسلیوں کی مانند ابھرتی تھیں۔ کہیں کسی مٹی سے بنے ہوئے جام کے کنارے کہیں کوئی پیندہ اور کہیں کہیں کوئی منقش ٹھیکری اور یہ سب جام سفال تھے کہ اگر ٹوٹ گئے تو ہڑپہ کے بازار سے ایک اور لے آتے‘ جام جمشید نہ تھے۔ کیا ٹیلہ ان زمانوں میں کسی ایسے کمہار کی دکان تھا جو ہڑپہ بھر میں سب سے نازک اور منقش جام اپنے چاک پر تخلیق کرتا تھا اور پھر انہیں اپنی بھٹی میں پکا کر مے خواروں کے خمار کا بندوبست کرتا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ایک سویر ہڑپہ کے مے خواروں نے کسی تبلیغی پروہت پر ایمان لا کر مے نوشی سے توبہ کر لی اور اپنے جام توڑ دئیے۔ رہ رہ کے مجھے وہ مشہور شعر یاد آتا ہے اور مجھے آج تک کوئی شعر یاد ہو جو یہ مکمل طور پر یاد آ جائے۔ بہرحال وہ کیا ہے کہ توبہ میری جام شکن اور پتہ نہیں جام میرا‘ توبہ شکن۔ اور سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا وغیرہ امید ہے کہ آپ کو یہ شعر یاد آ گیا ہو۔ تو ٹوٹے ہوئے پیمانوں جاموں کا یہ ڈھیر ایک ٹیلے کی صورت ہڑپہ میں موجود ہے۔ بے شک یہ سب برائیوں کی جڑ ام الخبائث ہمارے مذہب میں ممنوع قرار دی گئی ہے۔ شرابی حضرات کو اکثر کوڑوں سے نوازا گیا ہے لیکن یہ کیا ہے کہ شراب کا تذکرہ اور توصیف مغرب کی شاعری میں نہیں سراسر ہماری مشرقی شاعری میں ہی ملتا ہے۔ شراب ایک ایسا عظیم رومان ہے جس میں ابونواس ‘ حافظ شیرازی‘ غالب اور ہاں خیام سب کے سب مبتلا ہیں بلکہ ہمارے ہاں خمریات ایک الگ شعبہ ہے جہاں ریاض خیر آبادی اور وہ خود شراب کوشنید ہے ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور عدّم صاحب نے کیسے کیسے مخمور شعر نہیں کہے …‘ارے مے گسارو سویرے سویرے ۔ خرابات کہ گرد پھیرے پہ پھیرے۔ اور ‘یوں تو سفر حیات کا بے حد طویل تھا‘ میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا۔ گویا شارٹ کٹ اختیار کر لیا۔ یہاں تک کہ ہمارے ادب میں بھی سب استعارے شراب کے ہیں۔ بتا کیا تو میرا ساتھی نہیں ہے‘ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے۔ اور اصطلاح ساقی کوثر کی استعمال کی گئی اور جنت میں وعدہ بھی شراباً طہوراکا ہے کسی ملک شیک کا نہیں۔ میں نے ایک بار فراز سے پوچھا تھا اور فراز بے شک بدنام بہت تھا پر میں نے اسے ایک نہائت ہی ہمدرد اور محبت کرنے والا شخص پایا بلکہ ایک بسنت ایسی آئی کہ وہ میرے گلبرگ والے گھر کے کوٹھے پر پورا دن پتنگیں اڑاتا رہا۔ بو کاٹا کے نعرے لگاتا رہا اور آس پاس کے کوٹھوں اور چھتوں پر لڑکیوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے کہ دیکھو دیکھو تارڑ صاحب کی چھت پر احمد فراز گڈیاں اڑا رہا ہے۔ ثروت محی الدین اس وقوعے کی گواہ ہیں تو میں نے فراز سے پوچھا کہ آپ نے ہی تو کہا تھا کہ نشے سے کم تو نہیں یاد یار کا عالم۔ تو آخر مسلمان شاعروں کو ہی کیوں شراب کا رومان شکار کرتا ہے تو اس نے کہا تھا کہ تارڑ جو شے ممنوع ہوتی ہے اسی میں رومان ہوتا ہے کشش ہوتی ہے‘ چاہے وہ عورت ہو یا شراب۔ انہی دنوں فراز نے ایک شعر کا ستیا ناس کیا تھا کہ پہلے اس نے مُس کہا‘ پر تن کہا‘ پھر سر کہا‘ اس طرح ظالم نے مستنصر کے ٹکڑے کر دیے۔ ہڑپہ کی وہ شراب کے شکستہ پیالوں کی پہاڑی وہ ٹیلہ مجھے تخیل کے کن کن حیرت ناک جہانوں میں نہ لیے جاتا تھا۔ بہت عرصہ پیشتر جب میں صبح کی نشریات کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم تھا اور گندھارا عہد کے مجسموں کی تلاش میں کبھی سوات جاتا تھا اور کبھی ٹیکسلا میں بھٹکتا تھا تب ایک شام نوادرات جمع کرنے والے ایک دفاعی ادارے کے سابق افسر نے مجھے اپنے گھر مدعو کیا اور خفیہ طور پر مجھے بلوچستان سے دریافت ہونے والا ایک کم از کم چار ہزار برس قدیم خالص سونے کا ایک جام دکھایا جس کے کنارے پر بھینسوں کے سینگ ابھرے ہوئے تھے۔ دنیا بھر میں صرف دو سونے کے شراب کے پیالے ابھی تک موجود تھے ان میں سے ایک تہران میوزیم میں نمائش پر تھا اور دوسرا اس شام میرے ہاتھوں میں تھا بہت جی چاہا کہ شراب نہ سہی اس قدیم سونے کے جام میں کوئی بھی سرخ مشروب ہی پی لیا جائے بے شک شربت روح افزا ہو لیکن محسوس تو کیا جائے کہ آخر اس چار ہزار برس قدیم سونے کے پیالے میں کسی بھی مشروب کی چسکی لگائی جائے تو کیسے کیسے قدیم خمار نازل ہوتے ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر اس ٹیلے میں ابھری ایک ٹھیکری کو ذرا زور لگا کر مٹی میں سے اکھاڑا اور وہ ایک گول پیندا تھا‘ کسی شراب کے پیالے کا۔ روایت کے مطابق اس پیندے میں تلچھٹ باقی ہونی چاہیے تھی پر نہیں۔ اس شیشے میں مے باقی نہیں تھی۔ کون ہے جس نے مے نہیں چکھی کون جھوٹی قسم کھاتا ہے جو مے کدے سے بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے ٹیکسلا میوزیم کے ایک شوکیس میں ایک ہزاروں برس پرانا شراب کشید کرنے کا ایک مٹی کے گھڑوں کا سلسلہ ہے۔ ایک بار گیا تو ’’ قدیم لوگ ان گھڑوں میں شراب کشید کرتے تھے‘‘ درج تھا بہت عرصہ بعد گیا تو وہاں درج تھا ’’قدیم لوگ ان گھڑوں کو تہ بہ تہ کر کے پانی کو مصفا کرتے تھے۔ جب میں نے میوزیم کے کیوریٹر سے سبب پوچھا تو وہ کہنے لگا تارڑ صاحب لوگ اعتراض کرتے تھے کہ آپ نئی نسل کو کیا سبق پڑھا رہے ہیں کہ وہ لوگ شراب کشید کرتے تھے چنانچہ ہم نے مصلحت کے طور پر شراب کو پانی کر دیا۔ دھوپ کی شدت انگارے برساتی تھی۔ اور ہم بوکھلائے ہوئے ہری یوپیا کے کھنڈروں میں پھرتے تھے۔ ویسے آپ ہی انصاف کیجیے کہ اگر آپ کے سامنے ہزاروں برس قدیم ایک ایسا ٹیلا ہو جو شکستہ پیمانوں سے بنا ہوا‘ ٹوٹے ہوئے جام اس میں سے جھانکتے ہوں تو کیا آپ کو ابونواس ‘ حافظ ‘ عمر خیام‘ غالب‘ میر ‘ عدم‘ اختر شیرانی‘ شاہ حسین یاد نہ آئیں گے۔ مجھے یاد دلائیے گا کہ میں اس حوالے سے ایک تفصیلی کالم مے نوش شاعر حضرات کے شعروں کے حوالے سے لکھوں گا۔ یہ قصہ کہیں نہ کہیں درج ہے کہ ایک نہائت باریش اور متشرع حضرت غالب کی قبر کے تعویز کو برانڈی شراب سے غسل دے رہے ہیں‘ بو برداشت نہیں ہوتی تو چہرہ ناک سمیت ایک رومال سے ڈھانک رکھا ہے اور جب پوچھا گیا کہ حضرت یہ کیا چلن ہیں تو نہائت معصومیت سے کہنے لگے حضور مرید کی مجبوری ہے مرشد کو جو مشروب پسند تھا اس کا چڑھاوا چڑھا رہے ہیں۔ کسی سفر نامہ نگار نے تذکرہ کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں کوئی پاکستانی بزرگ ایسے ہیں جن کی لائبریری میں ہزاروں نایاب دینی کتب ہیں اور وہاں ’’دیوان غالب‘‘ بھی موجود تھا تو بزرگ نے لوگوں کی حیرت بھانپ کر کہا۔ ہم تو اسے ولی سمجھتے ہیں: یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا حیرت ہے کہ خمریات کے ایک بہت عظیم شاعر ریاض خیر آبادی نے زندگی بھر شراب نہ چکھی۔ بلکہ امکان غالب ہے کہ کبھی شراب کے مٹکے کو چھوا بھی نہیں اور ایسے ایسے شعر نکال کے لاتے جو رندوںکے نصیب میں بھی نہ ہوئے۔ اسی طرح کچھ اور شاعر کہتے ہیں: کی محتسب نے آج یہ اصلاح میکدہ شیشوں کو توڑ توڑ کے پیمانہ کر دیا (جلیل مانک پوری) شب کو مے خواب سی پی صبح کو توبہ کر لی رند کے رند رہے‘ ہاتھ سے جنت نہ گئی (جلیل مانک پوری) پھر ذوق مے کشی کو ہے معراج کی طلب کوثر کا بادہ چاند کا پیمانہ چاہیے (اختر شیرانی) مے خانہ اٹھائے پھرتے ہو‘ رندوں پر کچھ کرم کرو توڑو شیشہ و پیمانہ نظروں سے پلائو آج کی شب (ڈاکٹر انیس احمد) ان کھنڈروں میں بہت جھاڑ جھنکار تھا درخت اور جھاڑیاں تھیں اور پیار ے ٹیپو نے بتایا کہ تارڑ صاحب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان کھنڈروں کے آس پاس صرف وہی درخت کاشت کریں وہی جھاڑیاں پرورش کریں جو آج سے ہزاروں برس پیشتر ہڑپہ شہر کی ہریاول ہوا کرتی تھیں۔اس دوران شائد فرید نے کہا خواجہ نے پوچھا کہ ڈاکٹر نسیم نظر نہیں آیا تو کسی نے اصلاح کی کہ اس کی شوگر شوٹ کر گئی تھی اور ڈاکٹر انیس احمد اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ہم کہاں جانتے تھے کہ اس کی شوگر نہیں اس کا دل شوٹ کر گیا تھا۔ ہم ہڑپے سے نکلے تو دھوپ اور بھوک سے گھبرائے ہوئے نکلے سیدھے عادل کی پھوپھی جان کے نزدیکی چک میں جا نکلے جہاں ہمارے لیے ان خالص اور دیسی خوراکوں کے بندوبست تھے جن کے ذائقے ہم بھول چکے تھے۔ بہت مدت سے نہ ہم نے خالص آلو شوربہ کھایا تھا اور نہ پلائو۔ نسیم نے بھی جی بھر کے کھایا اور حسب خصلت قہقہے لگائے اور جب ہم نے لاہور واپسی کا سفر اختیار کیا تو نسیم کے قلب نے مسلسل دھڑکنے سے انکار کر دیا۔ رک رک کر دھڑکنے لگا وہ ایک ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہو گیا اور اس کے چہرے پر درد کا جو کھینچائو تھا یوں تھا جیسے موت کے شکاری نے اپنی کنڈیاں ڈال کر اس کے چہرے کو شکار کر لیا تھا اور ہم مجبور اور لاچار تھے۔ آس پاس ٹریفک کا ہجوم ہماری کوچ کا گلا گھونٹتا تھا۔ بالآخر گئی رات ہم لاہور پہنچے خواجہ تنویر اور فرید‘ نسیم کے ساتھ جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچے اور وہ موت کے منہ سے واپس آ گیا۔ چند سٹنٹ اس کی رگوں میں پیوست کروائے گئے اور وہ لوٹ آیا۔ یعنی کل سویر ہم نے اس کے جنازے میں شریک ہونا تھا۔ کیا یہ ہری یوپیا کے کھنڈروں میں بھٹکتی ہمارے آبائو اجداد کی روحیں تھیں جنہوں نے نسیم کے قلب پر اپنا سحر پھونک دیا تھا۔ ہم نے چونکہ محمد بن قاسم سے اپنی تاریخ کا آغاز کیا تھا اس لیے ہڑپہ کے کھنڈروں نے ہم سے انتقام لیا تھا۔ غور کرنے والوںکے لیے ان کھنڈروں میں بہت نشانیاں ہیں۔(اختتام)