بھوک انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔عمران خان کووزیراعظم بننے کے بعدمعاشی مساوات قائم کر کے ملک کو ترقی و خوشحالی اور خود انحصاری کی پٹڑی پر ڈالنا تھا ،وہ قرضوں کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دینے کی بات کیا کرتے تھے۔اقتدار میں آنے کے بعد ایسا یوٹرن لیا کہ جس کشکول کو توڑنا تھا اسی کشکول کو گلے میں ڈال کر غیر ملکی کیے ،جس آئی ایم ایف کو استعمار کا شکنجہ کہا کرتے تھے اسی آئی ایم ایف سے معاشی ٹیم مستعار لے کر پاکستان کو آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے پر مجبورکر دیا۔ یہ انہی معاشی افلاطونوں کی کارکردگی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی نے 70سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔عوام رشید حسرت کی طرحیہ دہائی د یتے نظر آتے ہیں مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً توڑے ہیں حکمرانوں نے پیمان یقیناً ستم بالائے ستم یہ کہ حکومتی وزیر مشیر حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے عوام کو روٹی کم کھانے اور چینی کے نو دانے چائے میں کم ڈالنے کے مشورے دے کر عوام کے زخموں پر مزیدنمک پاشی کر رہے ہیں ۔تحریک انصاف کے رہنمائوں کے سوئے فہم کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس کے ایک’’ وزیر بے تدبیر‘‘کا کہنا ہے کہ مہنگائی تو اللہ کی طرف سے ہے اور قیمتوں کا تعین فرشتے کرتے ہیں۔ عقل و خرد سے پیدل یہ حکومتی کار پر دازان مسائل کے حل پر توجہ دینے کی بجائے عوام کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عالمی سطح پر آج تیل اور پام آئل کی قیمتیں شریف برادران کی گزشتہ حکومت کے مقابلے میں دو گنا تک بڑھ چکی ہیں‘ لیکن حکومت کے افلاطونی وزیر اور مشیرعوام کواصل حالات سے آگاہی دینے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔عوام کو توصرف سستی روٹی‘ گھی‘ چاول اور دال‘ سبزی چاہئے اور قیمتوں اور مہنگائی پر کنٹرول حکومت کا کا کام ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پام آئل‘ جو گھی اور خوردنی تیل بنانے کے کام آتا ہے، کی قیمت گزشتہ دورِ حکومت میں 2 ہزار ڈالر فی ٹن تک تھی جو آج پانچ ہزار ڈالر سے بھی بڑھ چکی ہے صرف اسی‘ اکتوبر کے مہینے میں اس کی قیمت میں 16 فیصد جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران 72 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ گھی کی قیمتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں گلیوں بازاروں کی دکانوں اور چھوٹے بڑے سٹوروں پر لوگ حکومت کو کوس رہے ہیں،مہنگائی سے متاثر ہونے والے کروڑوں غریب گھرانوں کے باورچی خانوں سے بقول اجے سحاب یہ چیخیںبلند ہو رہی ہیں۔ چیخ اٹھے ہیں مرے گھر کے یہ خالیبرتن اب تو بازار سے مہنگائی کو واپس لے لے حکومت عالمی منڈی میں غذائی اجناس کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات ٹیکس میں کمی کر کے زائل کر سکتی تھی مگر آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کی مجبوری حکومت کو ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ حکومت ٹیکس کم کرنے کے بجائے فاقوں ماری قوم پر ٹیکس کا بوجھ مزیدبڑھا رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہمارے 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی، گیس، موبائل فون، پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیا پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ امیر ترین طبقہ صرف 5 فیصد کے قریب ٹیکسوں کی ادائیگی کرتا ہے۔ غربت کی وجہ سے تقریباً 80 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں نہیں جا پاتے۔ یہ ان پڑھ بچے بڑے ہو کر غربت،بے روزگاری اور جرائم میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔صرف پچھلے دو سالوں کے افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔ 2021 کے اعدادوشمار مزید تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3 فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھی۔ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ آٹا‘چینی‘گھی‘ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے فاقوں ماری قوم کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں1900افراد نے خودکشی کی جبکہ 2019ء میں بھوک سے عاجز آ کر خودکشی کرنے والوں کی تعداد 7000سے تجاوز کر گئی۔خودکشیوں کے حوالے سے 183ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 169ہے ۔ عالمی ادارہ صحت بار بار خبردار کر چکا ہے کہ پاکستان میں خودکشی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور مفلسی اور بھوک کی وجہ سے ہر روز 35پاکستانی خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ماضی کی حکومتوں میں تو لوگ اپنی ناکامیوں کی وجہ سے خودکشی کرتے تھے آج اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ زہر دے رہے ہیں۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ بھوک سے عاجزجوپاکستانی جان دینے کی ہمت نہیں جتا پاتے ، بھوک ان کو اخلاقی جرائم کی طرف لے جاتی ہے۔ایسے مجبوروں کی حالت چمن لال چمن نے ان الفاظ میں بیان کی ہے۔: مہنگائی میں ہر اک شے کے دام ہوئے ہیں دونے مجبوری میں بکے جوانی دو کوڑی کے مول فاقوں نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خودکشی کے 90فیصد واقعات ڈیپریشن میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پیش آتے ہیں پاکستان ایسوسی ایشن فارمینٹل ہیلتھ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مختلف شہروں میں ڈیپریشن کی شرح 22سے 60فیصد تک ریکارڈکی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں ذہنی صحت کا مسئلہ ہے ،ان تمام مسائل کو حل کرنا ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے وہ اس جانب بڑی سرعت سے پیش قدی کر رہی ہے۔لیکن دعوے محض دعوے ہی رہ جاتے ہیں،جب ان پر عمل نہ کیا جائے لہذا عوام کو مہنگائی کے موجودہ طوفان سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنے معاشی اشاریے اور اپنے وزیروں مشیروں کے دماغ درست کرے جو یومیہ بنیاد پر درفنطنیاں چھوڑ کر عوام کے د لوں غصے اور نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔