وہ جو نہ گھبرانے کا کہتے تھے، ایوان اقتدار سے نکل کر سڑکوں پر آگئے ہیں۔ جنہوں نے انکی جگہ لی ہے وہ اپنے آپ کو 'حقیقت پسندوں' کے قبیلے میں شمار کرتے ہیں۔اصول پسندی یہ ہے کہ کوئی اصول نہیں۔ ممکنات کی سیاست کرتے ہیں۔ ایسی پارٹیاں آپس میں مل بیٹھیں اور ایکا کرلیا جنکی آپس میں شکلیں تو دور کی بات ،آنکھیں تک نہیں ملتیں۔ بس حالات موافق ہوئے اور فطری تقاضوں نے انہیں اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرو دیا۔ آگے کیا ہوگا؟ حقیقت پسند لوگ سمجھوتے کرتے ہیں اور یہی انکی کامیابی کا راز ہوتا ہے۔ ابن الوقتی کوئی آج کی ایجاد تھوڑی ہے کہ اس بھان متی کے کنبے کو کوئی طعنہ دے گا تووہ شرما کر رہ جائیگا۔ سامنے کی بات ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوتے ہی اہالیان شوق قافلہ در قافلہ اپنی کمین گاہوں سے وفا کے علم اٹھائے نکلے اور مخالفین کے کیمپ اجاڑ دیے۔ معتبر گواہ سامنے آئے تو نظریہ سازش ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گیا۔ دیکھا جائے تو موجودہ حکمران قبیلے کے پاس وہ تمام عوامل و صلاحتیں ہیں جو اسے ایوان اقتدار میں براجمان رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ایک، ہمیشہ اقتدار میں رہنے کا جذبہ۔ اس میں دو رائے نہیں۔ کنڈولیزا رائس کی کرامت سے جب ایک ہو ہی گئے ہیں تو جدا ہونے کے لیے معجزہ درکار ہوگا۔ دوسرا، آصف علی زرداری کی موجودگی۔ وہ صلح کل کے حامی اور مفاہمتی سیاست کے امام ہیں۔ تیسرا، مشترکہ دشمن کی موجودگی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کون۔ کابینہ کا اعلان ہوگیا ہے۔ سب کو حصہ بقدر جسہ ملا ہے۔ کامیابی کا معیار معیشت ہے۔ بیرونی ادائیگیاں، جاری اخراجات اور تجارتی خسارہ۔ پچھلی حکومت بھی اسی گھن چکر میں پھنسی رہی۔ اگر اْس نے چار سال پچھلی حکومتوں کو کوسنے دیکر گزار دیے تھے۔ انہوں نے تو بس ایک سال ہی گزارنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بجٹ دینا ہے اور اسکے بعد الیکشن کا غلغلہ۔ ویسے بھی ملک کے تین صوبوںمیں مقامی انتخابات کا ماحول گرم ہے۔ بلوچستان اس عمل سے گزر رہا ہے، سندھ اور پنجاب میں مہم جاری ہے۔ اگریہ انتخابات آئین کی روح کی مطابق مقامی حکومتیں دے جاتے ہیں تو اگلی سیاست کی داغ بیل پڑجائیگی۔ احتساب؟سوال ہی پیدا نہیں ہو تا کہ یہ سیاسی بھائی چارے کی روح کے خلاف ہے۔ کم ازکم پیپلز پارٹی تو اس کی اجازت نہیں دیگی۔ یوں کامیابی یہ ہوگی کہ اتحادی نہ صرف عام انتخابات تک اقتدار میں رہ پائیں بلکہ بعد میں بھی انہیں کا طوطی بولتا رہے۔ یہ کیسے ہوگا؟ اتحادو اتفاق شرط ہے۔ بھائی چارے میں در آئی دراڑوں کو بھرا جاتا رہے،مولانا کی امامت میسر رہے اور دعائیں بھی ملتی رہیں، مقامی حکومتوں کے حوالے سے کیے گئے عہد و پیمان بھی پورے ہوتے رہیں تو بہت کچھ ممکن ہے۔ فطری موقع پرستی پر بیرونی دست شفقت کی مدد سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ ناکامی کا خوف بھی بھان متی کے کنبے کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ مخالف اگر ہاتھ ملاکر سیاسی بھائی چارے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو اسے اتنا طاقتور بھی رہنے دینا کہ صاحبان اقتدار کو آنکھیں دکھاتا پھرے۔ حقیقت پسندی کے اس اصول کاتو پتہ ہی ہے نہ کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ اخلاقیات گئی بھاڑ میں، مخالف کوبس جیتنا نہیں چاہیے۔ تاہم اس دفعہ مسئلہ یہ ہے کہ عدالتیں ' چوبیس گھنٹے ' کام کررہی ہیں۔ بہت کم امکان ہے کہ انتقامی سیاست کام کرپائے۔انتخابات کا ماحول ہے،مسابقت کا ماحول برقرار رہتا ہے تو شاید روایاتی حربے استعمال نہ ہوسکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مخالفین منہ پھٹ ہیں، ابھی انتخابات کا ہی کہہ رہے ہیں لیکن کسی قسم کی زیادتی ہوئی تو پنڈورا باکس کھل سکتا ہے اور حالات اتنے پیچیدہ ہوسکتے ہیں کہ اتحادی حکومت اداروں کے لیے سردرد بن سکتی ہے۔ اب ان غیرت کے علمبرداروں کی بھی سن لیں جنہوں نے جوشِ جنوں میں امریکہ کو للکار دیا۔ سازش کا معاملہ اپنی جگہ ، مخالف اگر کہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے تو اسے مغرب سے طلوع کرا نا ہی تھا۔ بھلے امریکہ بہادر کو کانوں کان پتہ نہ ہو لیکن سیاسی قبیلے کے پیرتلے تو بٹیرہ آ ہی گیا نا!اگلوں نے دشمن کے دشمن کو دوست بتانے میں دیر نہیں لگائی۔ایک بھر پور آگاہی مہم دیکھنے میں آئی جس میں کالم نگا ر یہ طرح باندھے ہوئے نظر آئے کہ اگر چہ سی آئی اے دنیا بھر میں اپنے سیاہ کرتوتوں کے لیے بدنام ہے لیکن پاکستان میں سیاسی تبدیلی اسکا کارنامہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ایک میڈیا گروپ کے سربراہ نے تو تحریک عدم اعتماد سے بہت پہلے ہی حکومت سے مایوسی اور اسکے منہ کے بل گرنے کا اعلان کردیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انگلی کٹا کر ' تو تو گیا' کا نعرہ مستانہ لگا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے تھے۔ دنیائے صحافت کے وہ سرخیل پہلے ہی میدان میں تھے جنہوں نے اپنی ادارتی پالیسی تک کو اوبامہ دور میں ہی ' جمہوریت ' کے قدموں میں نچھاور کردیا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ حقیقت پسند طبقہ عوام کے بارے میں متفکر نہیں۔ بالکل ہے۔ بس حکمت عملی میں فرق ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ ملازمت پیشہ لوگوں کی شکرگزاری الیکشن کے نتائج کو بھی چار چاند لگا دیتی ہے۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو لازمی اخراجات نکال کر کچھ بچ گیا تو کیوں نہیں۔ سڑکیں، پل، عمارتیں بنیں گے تو اس کا فائدہ بھی عوام کو ہوگا۔ بینظیر انکم سپورٹ سے بھی کجھ حاجت روائی ہو جائیگی۔ اگر کوئی آفت اور بلا آن پڑی تو دوست اور برادر ملکوں سے بھی خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ باقی جہاں قومی خود داری اور وقار کی بات ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ دشمن چالاک اور ہوشیار ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپکا دوست کون ہے۔ یوں، فقط آپ نے شرمانا نہیں۔ باقی سب خیر ہے۔ حقیقت پسند طبقے کی کامیابی کا سب بڑا راز انکا طاقت کے توازن پر یقین ہے۔ زمینی حقائق پر نظر ہو تو باقی خیریت رہتی ہے۔ آسمانی معاملات کوسنبھالنے کے لیے مولاٰنا بھی ساتھ ہیں۔ لنگر کے فلسفے کے قائل تو نہیں مگر صدقہ و خیرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ باقی اگر کوئی انہونی ہوجائے تو کیا ہو سکتا ہے۔ آخر قسمت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیا پتہ کل کلاںکارکردگی کو دیکھتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے اپنا وزن مخالفین کے پلڑے میں ڈال کر اتحاد و اتفاق کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں!