عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے ہم زمانے سے خود ہی ٹکرائے کچھ گلہ بھی نہیں زمانے سے وہی جو کہا گیا ہے کہ بعض اوقات ہاتھوں کی دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور اس کوشش میں بعض اوقات ایک دانت بھی نکل جاتا ہے۔ میں تو بس کچھ شگفتہ سی باتیں کرنے چلا ہوں کہ عقدہ کشائی بعض اوقات کوئی اور رخ اختیار کر لیتی ہے ایسے میں غالب کا ایک نہایت عمدہ اور بلیغ شعر یاد آ گیا: دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام مٹ گیا گھسنے اس عقدہ کا وا ہو جانا کیسی کمال بات ہے کہ وہ گرہ ہی غائب ہو گئی گویا اب کیا کھولیں گے۔کوشش میں اصل مقصد ہی فوت ہو گیا شعر میں کیسی نزاکتیں ہوتی ہیں۔ چلیے اس غزل کا ایک اور شعر ہے جس میں دوری شعر میں دکھا دی گئی ایسے جیسے کوئی تصویر سے آواز اٹھائے یا آواز سے تصویر بنا دے تجھ سے جدا ہونا ‘ کیسے الگ الگ کیا گیا۔ تجھ سے آغاز میں اور جدا ہونا: تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا نمبروں والے تالے تو آپ نے دیکھے ہی ہوںگے کہ نمبر ملانے سے تالا کھٹک کر کھل جاتا ہے۔ تب ہندسوں اور حروف والے تالے تھے یعنی ابجد ملا کر کھولے جاتے تھے۔ گویا جب کام بنے پر آتا تو تالے کی طرح دونوں جدا ہو گئے جیسے بند تالا کٹک کر کے کھلتا ہے۔ دوسرے مصرع کے اخیر سے یعنی جدا ہونے سے آپ بس لطف اٹھائیے کہ یہ کوئی سیاسی بات نہیں کہ آپ اسے کسی ہجر یا وچھوڑے کی بات سمجھ لیں بلکہ پہلے تو یہ ایک پیج پر تھے پھر پیج کیسے بدل گیا وغیرہ وغیرہ دل چاہتا ہے کہ سیاست سے ایک طرف رہ کر کچھ اور دلچسپ باتیں کی جائیں۔ میں ابھی ایک مذہبی مقرر کو سن رہا تھا اور خوب لطف اٹھا رہا تھا۔پہلی مرتبہ میں نے کسی کو عربی کی گردانیں دہرا کر لوگوں سے بے شمار داد لیتے دیکھا یہ عربی سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ایسے ہی جیسے کوئی اپنی انگریزی دکھانے کے لئے بچپن میں رٹا ہوا مائی بیسٹ فرینڈ مضمون سنا دے۔میں نے وہ ویڈیو شیئر بھی کی اور لوگوں نے دلچسپ کمنٹس بھی کئے خود ہی سوچیے ضرب‘ یضروب ضارب اور لاتضرب کو آپ رٹ کر سامعین کے سامنے ایک سانس میں پڑھ دیں پھر یہ کسی بھی لفظ پر بناتے جائیں جیسے کسب یکسب وغیرہ جو عربی کی شد بد رکھتے ہیں وہ خوب لطف اندوز ہوں گے ایک زبان سے نابلد تو اسے عربی جان کر خوب داد دے گا کہ پتہ نہیں مولانا کون سا فلسفہ بیان کر رہے ہیں۔ مقرر کا کمال یہ ہونا چاہیے کہ نہیں فل سٹاپ نہ آئے بے تکان بولتا جائے۔ ویسے آپ نے پانی کا بلبلہ تو سنا ہو گا اس نے بھی ہر خبر کو اس کے ساتھ ملا دیا۔یکسانیت کو فن بنانا بھی کمال ہے ۔ لی جئیے ایک اور خبر نظر نواز ہو گئی کہ سکھر میں ایک ڈاکٹر نے غلطی سے درست ٹانگ کا آپریشن کر کے راڈ ڈال دیا مریض ہوش میں آیا تو چیخنے لگا کہ متاثرہ ٹانگ تو چھیڑی ہی نہیں گئی یہ بھی اچھی بات کہ ڈاکٹر نے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے دوسری ٹانگ کا بھی آپریشن کر دیا ساتھ ہی ادارے نے متاثرہ لوگوں کو احتجاج سے روکتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ مریض کو دو ماہ میں چلنے کے قابل بنا دیں گے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ مریض کو بے ساکھیوں پر چلائیں گے یا اپنی ٹانگوں پر بالکل ایسا ہی واقعہ ہمارے ایک دندان ساز صدیق صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا کہ وہ مریض کو سن کرنے کا انجکشن لگا کر جمور اٹھانے آئے تو وہ مریض اٹھ کر تھوک پھینکنے گیا تو اس کی جگہ کوئی اور مریض آن بیٹھا۔ ڈاکٹر صاحب ویسے بھی موٹے شیشوں والی عینک لگاتے ہیں۔ جاتے ہی اس کا منہ کھولا اور کہا کہ ہاتھ رکھو آنے والے نے نشاندہی کی کہ یہ دانت درد کرتا ہے ڈاکٹر صاحب نے جمور ڈالا اور دانت نکال دیا وہ شخص چیخیں مچاتا رہ گیا یہ حادثات واقعات ہیں ۔ اس واقعہ سے انتہائی دلچسپ واقعہ یاد آ گیا کہ جن دنوں میں ہم سارا دن پی ٹی وی پر نغمے اور پروگرامز لکھا کرتے تھے ہمارے ایک پروڈیوسر کو لانگ لیگ کہا جاتا تھا معلوم کرنے پر ہمیں ذوالفقار فرخ صاحب نے بتایا کہ وہ بہت لائق فائق پروڈیوسر تھے مگر کچھ برس قبل ایک حادثہ میں ان کے دماغ پر چوٹ لگی اور زخم آ گیا علاج کرانا پڑا بس کیا تھا کہ ان کے دماغ کو ٹانگ کا کچھ حصہ لگانا پڑا اور دماغ کا ٹانگ کو تب ہی سے کبھی کبھی دماغ میں ٹانگ کی تاثیر آ جاتی ہے اور کبھی کبھی وہ ٹانگ سے دماغ کا کام لیتے ہیں۔ سوچتے سوچتے کبھی ٹانگ جنبش کرتی ہے اور کبھی منصوبہ بندی میں وہ ٹانگ پھنسانے لگتے ہیں۔ یہ بات سن کر وہ پروڈیوسر زیر لب مسکراتے رہے اور بات کی تردید نہیں کی اچانک مجھے ایک شاعر یاد آئے جو فری سٹائل شاعری کرتے تھے ان کا ایک فقرہ نظر سے گزرا۔ لکھتے ہیں مصرع سوچتے سوچتے میرے ناک کی ہڈی چوری ہو گئی۔ آپ میرے کالم کو اوٹ پٹانگ سمجھتے رہیں کہ میں نے لکھا ہی ایسے ہے کہ لانگ مارچ پر کیا لکھتا کہ وہ ایک جگہ رکے گا تو کچھ لکھیں گے جب تک کوئی بات سامنے نہیں آتی ہم بھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہیں گے۔ بہرحال نوجوان نکلے ہوئے ہیں لطف اٹھا رہے ہیں بڑے عرصے کے بعد انہہیں کوئی شغل ملا ہے کہ نوکری تو ملتی نہیں وہ خان صاحب سے محبت کرتے ہیں اور نہیں پوچھتے کہ نوکریاں کیا ہوئیں۔ محبت ایسی ہی ہوتی چاہے کہ ہر شرط اور شعور سے ماورا ہے وہی جو کسی نے کسی سے پوچھا تھاکہ آئو چلیں پوچھا گیا کہ کہاں؟ بات کرنے والے نے کہا لعنت ہے اس پوچھنے پر کہ ’کہاں‘’’ جتھے رابطے ہوندے نیں ‘‘۔ایک شعر: بات کرتا رہا میں اس سے مگر بات بنتی نہیں بنانے سے