بالآخر بعد از خرابی بسیار افغانستان میں خونیں انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ انتخابات امن و امان کی جس صورتحال کی وجہ سے گزشتہ تین سال سے ملتوی ہورہے تھے ،ان سے بھی بدتر حالات میں منعقد کروائے گئے۔ ووٹ ڈالنا اتنا اہم فریضہ تھا کہ اس کے لئے عوام اور متعلقہ حکام کی جان تک دائو پہ لگا دی گئی جبکہ کابل میں اقتدار کے مرکز کا رہائشی کئی بار کہہ چکا تھا کہ وہ اپنے صدارتی محل میں بھی محفوظ نہیں ہے۔اس کے علاوہ افغانستان میں طالبان کا کنٹرول اب پہلے سے بھی زیادہ ہے۔وہ شمال میں بدخشاں ، فاریاب اور بغلان سے لے کر مغرب میں صوبہ فرح تک نہ صرف پھیلے ہوئے ہیں بلکہ کئی صوبوں میں اپنی متوازی حکومت بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں جہاں عوام کو نہ صرف تعلیم انصاف اور صحت کی سہولیات میسر ہیں بلکہ حیرت انگیز طور پہ ہلال احمر سمیت دیگر غیر سرکاری فلاحی تنظیموں اور مقامی حکام کے ساتھ طالبان کے روابط موجود ہیں۔ان انتخابات سے قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد واضح اعلان کرچکے تھے کہ افغانستان میں انتخابات کے عمل کو ممکن بنانے والے ہر شخص کو نشانہ بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ دوسری طرف کابل حکومت افغان عوام کو یقین دلاتی رہی کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لئے ضرور نکلیں ان کی حفاظت کا ذمہ حکومت لیتی ہے۔یہ انہوں نے نہیں بتایا کہ خود افغان حکام کی حفاظت کا ذمہ کون لے رہا ہے کیونکہ انتخابات سے دو روز قبل قندھار میں طالبان نے ایک اندرونی حملے میں اپنے معروف دشمن اور افغان انٹیلی جنس اور پولیس چیف عبدالرازق کو گورنر محل میں ایک اہم میٹنگ کے بعد جنرل اسکاٹ ملر کی موجودگی میںقتل کردیا۔ اگر طالبان افغان اور امریکی حکام کے اتنے نزدیک ان کے محافظوں کے روپ میں موجود ہیں تو عوام کی جان خطرے میں ڈال کر انتخابات کا ڈول ڈالنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی جبکہ پچاس ہزار فوجی نفری کے زیر انتظام و حفاظت ہونے والے ان انتخابات میں دس امیدوار بھی ایسے ہی واقعات میں جان بحق ہوچکے ہوں۔نوجوان جنرل عبدالرازق عرصے سے طالبان کے نشانے پہ تھے۔ ان کے قتل کے بعد نیویارک ٹائمز کے مجیب مشال نے ٹویٹ کیا کہ نو سال قبل انہوں نے جب عبد الرازق کے ساتھ مل کر ان پہ ہونے والے قاتلانہ حملے گنے تو گنتی چالیس تک پہنچ گئی جبکہ اس وقت ان کی عمر صرف تیس سال تھی۔ وہ سترہ سال کی عمر میں اپنے باپ اور چچا کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے ہتھیار اٹھا چکے تھے جو طالبان کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔امریکہ جو دنیا بھر میں جمہوریت کا راگ الاپتا ہے، افغانستان میں ہی نہیں تمام مسلم ممالک میں جہاں جہاں اس نے کسی نہ کسی بہانے سے قدم جمائے ہوئے ہیں، جمہوریت کے بالکل معکوس ایک حکمت عملی اختیارکرتا ہے اور وہ ہے جمہوریت کے منافی، امریکہ کے دشمنوں کے دشمنوں کو ذاتی حوالوں سے مضبوط کرنا کیونکہ سیدھا سا حساب ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔پھر چاہے وہ لیبیا کا جنرل ہفتار ہو جسے لیبیا پہ امریکی قبضے ، قذافی کی معزولی اور قتل کے بعد امریکہ میں پناہ دے کر پالا پوسا گیا ہو یا افغانستان میں دیگر وار لارڈز کی طرح جنرل عبدالرازق ہو جو طالبان کا ہی نہیں پاکستا ن کا بھی کھلا دشمن تھا اور اکثر اس حوالے سے بیانات دیتا رہتا تھا۔ پاکستان کی طرف سے چمن میں باب دوستی کو بند کرنے کی وجہ بھی یہی تھا اور افغان میڈیا کے مطابق پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان باڑ لگانے میں ناکامی کا ذمہ دار بھی یہی تھا۔ اس کے علاوہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے اتنا بدنام تھا کہ افغانستان میں ٹارچر ان چیف کہلاتا تھا۔ جس آبادی یا گھر پہ اسے طالبان کو پناہ دینے کا شبہ بھی ہو،اسے نیست و نابود کرنا اور طالبان سے رابطے کے شبے میں مشکوک افراد پہ ظلم و ستم کی حد کردینا اس کے لئے معمول کی بات تھی۔ اس کے علاوہ وہ مالی بدعنوانیوں میں بھی ملوث تھا ۔ معروف وکی لیکس میں اس کی بدعنوانی کے متعلق حیران کن انکشافات موجود تھے اور وہ امریکی چھتری تلے ویچ چمن بارڈر پہ ہر طرح کی سمگلنگ، افیم اور ہیروئن کے کاروبار اور دیگر غیر قانونی ذرائع آمدنی میں ملوث تھا ۔ یہاں تک کہ اس کے زیر انتظام بارڈر سے حاصل ہونیوالا صرف ایک بٹا پانچ فیصد ریوینیو افغان حکومت تک پہنچتا تھا۔ ہاں چونکہ وہ طالبان کا سفاک دشمن تھا اس لئے امریکہ کا منظور نظر تھا اور انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ اور اتحادیوں کو نہ اس کی کرپشن نظر آتی تھی نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ۔ امریکہ نے اس کے سر پہ اسی طرح ہاتھ رکھا جیسے کئی وار لارڈز کو اس نے گود لے لیا تھا۔ طالبا ن کے خطرے کے پیش نظر ماضی کے ہیرو آج بھی نہ صرف امریکہ کے منظور نظر بنے رہے بلکہ حالیہ انتخابات میں جمہوری جوش و خروش سے حصہ بھی لے رہے تھے۔ ان انتخابات میں امیدوار پارٹیوں کے نام اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کل کے بڑے بڑے مجاہد آج مشرف بہ جمہوریت نظر آئیں گے جہاں رشید دوستم کی پارٹی کے چوالیس امیدواروں کے بعد دوسرے نمبر پہ حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار کی پارٹی کے بیالیس امیدوار بشمول خواتین موجود ہیں۔ ایسے اجتہاد کے بعد اصولاً تو طالبان کو بھی ہتھیار پھینک کر انتخابی عمل کا حصہ بن جانا چاہئے تھا لیکن وہ امریکی عملداری میں کسی نظام کی پیروی کے لئے تیار نہیں ہیں۔ خیر، بھارتی سکیورٹی فورسز کے سائے میں بھی انتخابات تو ہوتے ہی ہیں لیکن میڈیا بھائیں بھائیں کرتا پولنگ اسٹیشن ضرور دکھا دیتا ہے۔ ایسے ہی الیکشن امریکی اور نیٹو افواج کے سائے تلے لیبیا اور عراق میں بھی ہوتے ہیں اور ان ہی حالات میں ہوتے ہیں۔اس سے فرق بس یہ پڑتا ہے کہ امریکی پٹھو حکومتوں پہ جمہوریت کی مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے اور من پسند نمائندے پارلیمنٹ میں بھیج دئیے جاتے ہیں تاکہ دنیا کے جمہوری نقشے کی من مانی تشکیل ہوسکے۔ایسے میں جو امریکی عملداری قبول نہیں کرتے اور ہتھیار اٹھائے رکھتے ہیں وہ تو ہیں ہی دہشت گرد، ان پہ جمہوریت دشمن ہونے کا لیبل بھی بآسانی لگا دیا جاتا ہے حالانکہ جب کشمیر میں بھارتی پٹھو حکومت کے زیر انتظام انتخابات کا بائیکاٹ جمہوریت دشمنی نہیں ہے تو افغانستان میں امریکی پٹھو حکومت کے انتخابات کا بائیکاٹ جمہوریت دشمنی کیوں ہے؟ تاریخ میں خونی انقلابات کا تذکرہ تو ملتا ہے، اب جن سے عبرت پکڑ کر رد بلا کے طور پہ انتخابات کروا دئیے جاتے ہیں تاکہ دریدہ و بریدہ عوام کو یہ دل خوش کن احساس ہوتا رہے کہ اس تقریب سعید میں ان کی شرکت باعث مسرت و افتخار ہے لیکن جب انتخابات ہی خونیں ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو ان کا مقصد نہ نئی حکومت کی تشکیل ہوتی ہے نہ آئین کی عملداری۔ یہ بس دنیا کو یہ دکھانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ عوام نے جمہوریت کے سوا ہر راستہ مسترد کردیا ہے چاہے اس کے لئے ٹرن آوٹ کے متعلق جھوٹ ہی کیوں نہ گھڑنے پڑیں اور بیسیوں لاشوں سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے ۔