نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلے سے قوم کو ایک نئی بات کا تو پتہ چلا کہ کم از کم کیپٹن (ر) صفدر اپنی اہلیہ مریم نواز اور سسرجی سے زیادہ ایماندار اور زیادہ صادق اور امین ہیں، اور ان کی بہادری پر بھی اب بیوی سمیت کوئی شک نہیں کر سکے گا، سب نے دیکھا جب عدالت فیصلہ سنا رہی تھی وہ عدالت میں موجود ہونے کی بجائے اپنی الیکشن مہم چلا رہے تھے اور جب فیصلہ سنایا جا چکا تھا تب بھی وہ ووٹ مانگ رہے تھے، کیپٹن صفدر نے ثابت تو کرنا تھا ناں، وہ داماد کس کا ہے؟ پانامہ لیکس کے حوالے سے سابق وزیر اعظم کیخلاف احتساب عدالت کا فیصلہ آئے آج تیسرا دن ہے،نواز شریف اور مریم نواز کو سنائی جانے والی سزاؤں پر تبصرے کم اورشہباز شریف کی مصالحانہ پالیسی پر گفتگو زیادہ ہو رہی ہے، جہاں بھی جائیں لوگ شہباز شریف پر انگلیاں اٹھاتے نظر آتے ہیں، دانشوروں کے دلائل اور تبصرے کہاں کہاں سے ایجاد ہو رہے ہیں؟ ہمیں اس کا پتہ نہیں، البتہ ہمارے نزدیک توشہباز شریف ایک نفیس شخص ہوا کرتے تھے، اب ان کا کردار اگر واقعی ان مسلمان مغل بادشاہوں والا ہو گیا ہے جو تخت کیلئے باپ اور بھائیوں کو قید خانوں میں ڈال دیا کرتے تھے اور قتل کرا دیا کرتے تھے، تو ہمیں اس کی خبر نہیں۔قران حکیم میں برادران یوسف کا قصہ ہمیں ان کہانی کاروں کے ساتھ الجھنے سے روک دیتا ہے، ایک بات کا جواب قطعاً ہمارے پاس نہیں کہ جمعے کو جس شخص کو سزا سنائی گئی وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیڈر نہیں سگے بڑے بھائی ہیں، اس نواز شریف کے چھوٹے بھائی جو اپنی بیٹی کے ساتھ لندن میں بیٹھے ہیں جہاں ان کی اہلیہ اسپتال میں بے ہوش پڑی ہیں،کیا ان حالات میں شہباز شریف کو احتساب عدالت کے باہر کھڑا نہیں ہونا چاہئے تھا؟ کیا شہباز شریف کے بظاہر اس بیانیہ میں کوئی وزن ہے کہ ن لیگ پانامہ لیکس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو ملنے والی سزاؤں کا انتقام ووٹ سے لے گی؟ لوگ تو اور بہت کہانیاں لئے پھر رہے ہیں اوران کہانیوں کے جواب صرف شہباز شریف کے پاس ہی ہو سکتے ہیں، البتہ موصوف نے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائے جانے کے بعد جو پریس کانفرنس فرمائی وہ پریس کانفرنس نہیں محض ایک بے معنی مذمتی قرارداد تھی ، ایک بات پچیس جولائی کے ممکنہ الیکشن کے نتائج سامنے آنے تک یاد رکھی جائے کہ احتساب عدالت کے فیصلے کی آگ سے خود شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے بھی نہیں بچ پائیں گے،( میں پچیس جولائی کو پولنگ شروع ہونے سے نتائج سامنے آنے تک الیکشن کو ممکنہ الیکشن ہی کہتا رہوں گا) نواز شریف نے بیٹی اور خود کو سزا کا فیصلہ ایون فیلڈ کے اسی اپارٹمنٹ میں سنا، جس کی بے نامی ملکیت کے جرم نے انہیں سزا دلوائی، وہ سزا والے دن ہارلے اسٹریٹ کلینک بھی نہ جا سکے،جہاں بیگم صاحبہ کو دیکھنے کیلئے روزانہ جانا ان کا معمول تھا، کتنی بد قسمتی کہ اس دن انہیں پرسہ دینے کوئی ایک پارٹی کارکن بھی نہ پہنچا، نہ اپارٹمنٹ کے باہر اور نہ اسپتال کے باہر… فیصلے کی اس گھڑی میں باپ تھا اوربیٹی تھی ،وہاں اگر کوئی تیسرا تھا تو وہ بدقسمتی تھی، بد قسمتی جو نواز شریف نے اپنے لئے خود خریدی جمعہ کو سزاؤں کا اعلان ہونے کے بعد ن لیگی حلقوں نے میڈیا میں یہ بات پھیلادی کہ نواز شریف اور مریم نواز اتوار کو لندن سے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور پیر کے دن وہ عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں گے، جمہوریت پسندوں نے اس اعلان کو سراہا، جو ڈیپریشن (ن) لیگیوں پر سوار ہوئی تھی وہ بھی تھوڑی کم ہوئی، لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا، اب کم از کم (ن) لیگ بچ جائے گی، یہ بھی کہا گیا کہ کچھ بھی ہو جائے (ن) لیگ کو دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جا سکے گا، نواز شریف کے آجانے سے لیگی ووٹرز بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچیں گے۔ اس باز گشت کی گونج کے ساتھ ہی نیب نے پریس ریلیز جاری کردی جس میں کہا گیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو لینڈ کرتے ہی گرفتار کر لیا جائے گااور اس کے بعد نیوز چینلز کی اسکرینوں پر نواز شریف مریم نواز کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نظر آئے اور ن لیگ کے حامیوں کی امیدوں پر اوس ڈال گئے، انہوں نے واپسی کا اعلان تو کیا مگر حتمی تاریخ نہ دی اور اپنی واپسی کو بیگم کلثوم نواز کے ہوش میں آنے تک سے مشروط کردیا۔ نواز شریف اور ن لیگ کا حال احوال جاننے والے ہمارے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف بدھ کے روز پاکستان میں ہونگے، اگر ان کی اطلاع درست ہے تو پھر بھی ن لیگ کے مستقبل کے لئے اچھا شگون ہے، کم از کم کوئی میدان میں تو کھڑا ہوگا،ورنہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ خدشہ سو فیصد درست ہوجائے گا کہ سارا میلہ صرف کنگز پارٹی کو اقتدار میں لانے کیلئے لگایا گیا۔جمعہ کے دن سنائے گئے فیصلے کی تفصیل میں جائیں تو اس میں بہت کچھ نواز شریف کیلئے اچھا بھی ہے، جج صاحب نے اپنے فیصلے میں برملا اظہار کیا ہے کہ استغاثہ اس مقدمے میں شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا، اور پھر صبح نو بجکر چالیس منٹ پر جج صاحب کا کمرہ عدالت میں آ جانا اور نوازشریف کی اس درخواست کو مسترد کرکے واپس چیمبر میں چلے جانا ، جس میں درخواست کی گئی تھی کہ فیصلہ سات دن کیلئے موخر کردیا جائے کیونکہ فیصلے کے وقت نواز شریف خود کمرہ عدالت میں موجود ہونا چاہتے ہیں، اس کے بعد نواز شریف کیخلاف فیصلے کو کئی گھنٹوں تک ہوا میں معلق رکھا گیا، پانچ بار فیصلے کا وقت بڑھایا گیا، پوری قوم کے اعصاب کا امتحان لیا گیا۔کیوں؟ سوال تو بنتا ہے اگر کوئی جواب دینے والا ہو۔ جواب یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ سو صفحات کے فیصلے کی ڈھیر ساری کاپیاں کرانے میں وقت تو لگتا ہے۔ سوال بہت سارے ہیں جو ایک عرصہ تک اٹھائے جاتے رہیں گے اور لوگ بھی بہت ہیں جو ان سوالوں کے جواب دیتے رہیں گے، ایک نکتہ نظر یہ بھی ابھارا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے پاکستان واپس آجانے سے الیکشن متنازعہ ہوجائیں گے، ہمارا نظریہ یہ ہے کہ الیکشن تو متنازعہ ہو چکے۔ ٭٭٭٭٭ ایک بحث یہ شروع ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، آصف زرداری کی جبری زباں بندی کرائی جا رہی ہے، پنجاب میں جس وقت نواز شریف کو سزا سنائی جا رہی تھی عین اسی وقت بینکار حسین لوائی کو پوچھ گچھ کیلئے اٹھا لیا گیا، حسین لوائی پر اربوں روپے کی ٹرانزیکشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں، ان کی فائل 2015ء میں بند کر دی گئی تھی اور اب اچانک پھر کھول لی گئی ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی اگلے الیکشن جیتتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، ووٹرز کا رجحان عمران خان کی جانب ہے، آدھا پنجاب تو الیکشن سے پہلے ہی ن لیگ سے چھن چکا ہے، ن لیگ کی مرکز میں حکومت کا ہمیشہ سے وسیلہ ہی پنجاب بنا ہے، ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے امکانات معدوم ہیں،،،، پھر ڈر کاہے کا؟سندھ میں پیپلز پارٹی کی ہار جیت کا انحصار ووٹروں کے فیصلے پر ہی چھوڑا جانا ضروری ہے، کراچی میں ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کے بعد پیپلز پارٹی کی جبری چیر پھاڑ ملکی وحدت کے خلاف ہوگی۔