لکھاری کے مشاہدے میں آنے والی کہانیاں اور واقعات اس کے پاس ایک امانت کی طرح ہوتے ہیں۔ جسے کسی نہ کسی مناسب وقت پر اپنے پڑھنے والوں کو لوٹانا پڑتا ہے۔ زیر نظر واقعہ بھی ایک ایسی ہی امانت ہے جو میں آج لوٹا رہی ہوں۔ تہجد کی اذان کے ساتھ یہ نسرین درزن اٹھ گئی تھی۔ اس کے دن کا آغاز روزانہ اسی وقت پر ہوتا تھا۔ اس نے اٹھ کر وضو کیا اور مصلیٰ بچھا کر نفل ادا کرنے لگی۔ یہی وقت ہوتا کہ وہ اپنے رب کے حضور اپنا دل کھول کر بیٹھتی۔ دعائوں میں اتنی رقت طاری ہوتی کہ الفاظ آنسو میں ڈھل جاتے۔ جب سے اس کے جوان بیٹے کو کینسر کا مرض لاحق ہوا تھا اس نے تہجد کی نماز پڑھنا شروع کر دی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے صحت کی دعائیں مانگتی لیکن آج تو ایک اور مشکل درپیش تھی۔ اس کی بیٹی کے سسرال والے تاریخ لینے آئے تھے اور درزن نسرین کے پاس بیٹی کی شادی کا اسباب موجود نہ تھا۔ وہ دیر تک ذکر اذکار میں مصروف رہی۔ فجر پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت کی اور اس کے گھر قرآن پڑھنے والے بچے سینوں سے سپارے لگائے اس کے صحن کو بھرنے لگے۔ ادھرسورج کی نرم شعاعیں زمین کو روشن کرنے لگیں۔ ادھر درزن نسرین کا چھوٹا سا صحن قرآن پاک کی تلاوت کی ملی جلی آوازوں سے گونجنے لگا۔ ناشتے کے بعد وہ برتن سمیٹتی ہے اور گھر بار اپنی بیٹی کے سپرد کر کے خود اپنے گائوں مانووال چوہنگ سے نکل کر لاہور شہر جانے والی ویگن پکڑتی ہے۔ وہ یہاں شہر کے خوشحال گھروں میں برتن ‘کپڑے دھونے اور صفائی کا کام کرتی ہے۔ تین چاربجے تک وہ واپس اپنے گائوں مانووال پہنچتی ہے پھر رات گئے تک سلائی مشین پر جھکی کپڑے سلائی کرنے کا کام کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ برس سردیوں کے آغاز میں مجھے ایک اور گھریلو ملازمہ کی ضرورت پڑی تو میں نے درزن نسرین کو کچھ کاموں کے لیے اپنے گھر رکھ لیا وہ ہر وقت شکر کا کلمہ پڑھتی رہتی۔ بار بار۔ اور اتنی بار کہ مجھے خود پر شرمندگی ہونے لگتی کہ میں کیسی ناشکری ہوں۔ اللہ نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے مگر میں شکر کا اتنا اظہار کہاں کرتی ہوں۔ ایک دن درزن نسرین مجھے کہتی کہ باجی میری بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آج میں نے اللہ سوہنے کے آگے عرضی ڈالی ہے۔ باجی پہلے شکرانے کے نفل پڑھے۔ توبہ کی اور پھر عرض گزاری کی اللہ سوہنا میری مدد کر‘‘میں نے بہرحال اس کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو تمہاری بیٹی کی شادی کے لیے انشاء اللہ سب کچھ کریں گے۔ انہی دنوں کی بات ہے غالباً فروری کا مہینہ تھا۔ کہ میر ہزار خان بجارانی نے اپنی تیسری بیوی کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ میں نے اس پر کالم لکھا تھا معاشرے کے مختلف طبقات کی نفسیات کو سمجھنا‘ اس کا موازنہ کرنا‘ اسے سٹڈی کرنا شروع سے مجھے پسند رہا ہے۔ سو کالم لکھتے ہوئے میں نے ایسے ہی سر راہ یہ موازنہ کیا کہ ایک سندھی وڈیرہ ارب پتی سیاستدان زندگی سے اس قدر ناخوش ہے کہ خودکشی کر لیتا ہے اور دوسری طرف درزن نسرین بھی ہے سارا دن مشقت کرتی مشکلات کا پہاڑ کاٹتی ہے اور شکر کرتی ہے۔ جوان بیٹا کینسر کامریض ہے۔ بیٹی کی شادی طے ہے مگر مالی اسباب نہیں۔ محض ایک دو لائنیں ہی اس پر لکھی ہوں گی۔ اس کالم پر مجھے ہارون الرشید صاحب کی کال آتی ہے۔ وہ کالم کی تعریف کرتے ہیں ساتھ ہی کہتے کہ میں اس خاتون کی مدد کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر آپ نے اپنے کالم میں کیا۔ میں نے جواباً کہا کہ ہارون صاحب اس کی بیٹی کی شادی کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ ۔اللہ بہتر کرے گا۔فروری میں ایک دو بار ہارون صاحب سے فون پر بات ہوئی لیکن اس بات کا دوبارہ ذکر نہ ہوا۔ مارچ کے آغاز میں ہارون صاحب کا فون آیا کہ گھر کا ایڈریس بھیج دیں میں ضرورت مند خاتون کے لیے کچھ رقم بھجوا رہا ہوں۔ڈرائیور کے ہاتھ اس کے بعد تقریباً ساڑھے تین بجے دوپہر کال آئی کہ میں آپ کے گھر کے راستے میں ہوں۔ چند منٹ کے بعد ہارون صاحب ہمارے گھر موجود تھے۔ نوید نے انہیں ریسیو کیا اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔انہیں یوں اچانک دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ میرے لیے ایک استاد اور Mentorکا درجہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی ایک لفافہ مجھے دیا کہ آپ اس خاتون کو دے دیں میں نے کہا سر اسے بلاتی ہوں آپ اسے خود پکڑا دیں۔ کچن میں برتن دھوتی درزن نسرین کو میں نے ڈرائنگ روم میں بلایا۔ ہارون صاحب نے اسے رقم کا لفافہ تھما دیا اور نظر اٹھا کر بھی ضرورت مند کو نہ دیکھا کہ کہیں اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ایک لاکھ دس ہزار کی خطیر رقم دیکھ کردرزن نسرین نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔’’باجی اللہ نے میری عرضی دا جواب دے دیتا‘‘ باجی اللہ نے نیک بندہ میری مدد لئی پے جیا اے‘‘ میرے علم میں یہ بات ہے وہ ضرورت مندوں کی مدد اپنی جیب سے بھی کرتے اور کرواتے بھی ہیں۔ انہوں نے کسی غریب شخص کے بیٹے کے دماغ کے کینسر کا علاج جس پر ایک کروڑ لاگت آتی تھی برطانیہ سے کروایا اور اس کے لیے ہارون صاحب نے جنرل اشفاق کیانی سے درخواست کی تھی۔ جنہوں نے اسے اپنے ذرائع سے اخراجات اٹھائے۔ اللہ کی مخلوق کے لیے ایسی دوڑ دھوپ کرنے والے انسان کتنے کم ہیں۔ وہ اپنی نیکی کا تذکرہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کجا کہ اس پر کالم ہی لکھ دیا جائے۔ آج آٹھ ماہ ہو چکے ہیں میں نے اس واقعہ پر کبھی ایک حرف بھی نہیں لکھا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ ایک امانت میرے پاس تھی اسے لوٹانا ضروری تھا۔ اس وقت ہارون صاحب کی ایک تھانیدار کے ساتھ گفتگو کی آڈیو وائرل ہے۔ میں نے بھی سنی ہے اس میں ایسی کون سی اعتراض والی بات ہے کہ ہارون الرشید اگر کسی بے گناہ کو بچانے کی اچھی نیت سے تھانے فون کرتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے آ کر یہ درخواست کرے کسی پر تھانے میں ناجائز ظلم ہو رہا ہے تو جو میرے اختیار میں ہو گا میں ضرور کروں گی۔ درد دل رکھنے والا ہر انسان ایسے ہی سوچے گا۔ وہ اختیار اور پیسہ بھاڑ میں جائے جو کسی کے کام نہ آئے۔ تھانیدار نے ’’گدھے کا بچہ‘‘سننے کے بعد برداشت کا کون سا مظاہرہ کر لیا۔ اس نے بھی برابر بدلہ لیا اور جب تھانیدار بدتمیزی سے بول رہا تو ہارون صاحب نے تحمل سے برداشت کیا۔ ہارون صاحب بزرگ ہیں۔ سچا اور کھرا بندہ تند خو بھی ہو جایا کرتا ہے۔ عظیم ترین ہستیوں میں ایسے مزاج کی مثالیں موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر لمبی لمبی زبانیں لٹکائے زہر اگلنے والے ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ اور اپنی زبانوں کو لگام دیں۔ انسانوں کو انسان ہی رہنے دیں فرشتوں کے معیار پر انہیں نہ پرکھیں آج ہی فیس بک پر دیکھا کہ ناہنجار حکیم سعید شہید کی شخصیت کا پوسٹ مارٹم کر رہا ہے۔ الامان! ہارون صاحب جیسے اعلیٰ ظرف انسان تو اپنی غلطی کا احساس بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے نامناسب الفاظ کہہ دیے۔ لیکن اس لمبی زبان والی سوشل میڈیائی مخلوق کو کون لگامیں ڈالے گا! درزن نسرین آج بھی منہ اندھیر تہجد کے لیے اٹھتی ہے تو اس اجنبی سخی کے لیے دعا ضرور کرتی ہے جس کو اس کے سوہنے رب نے اس کی عرضی کا جواب دے کر مارچ کی ایک سہہ پہر کو اس کے پاس بھیجا تھا۔ پس تحریر:آٹھ ماہ تک میں نے اس واقعے پر کچھ نہیں لکھا۔ فیس بک پر ہی کوئی پوسٹ لگائی۔ مجھے خبر تھی کہ ہارون صاحب کو قطعاً تشہیر گوارا نہیں۔ مگر اب جو غدر سوشل میڈیا پر مچا ہے اس کے تناظر میں یہ امانت لوٹانا ضروری تھا۔ ہارون صاحب! امید ہے آپ بُرا نہیں منائیں گے۔