ایک پولیس افسر ہمارے بڑے قریبی دوست ہیں ۔یہ قصہ ہمیں انہوں نے ہی سُنایا تھا ۔آپ اُن کی زبانی ہی سُنیے : ’’ محکمہ پولیس میں یہ میرا پہلا سال تھا اور ڈی ایس پی چوہدری شریف کا آخری سال۔مجھے جس سرکل ( تحصیل ) میں بطور انڈرٹریننگ انسپکٹر پوسٹنگ ملی اس کے انچارج ڈی ایس پی تھے۔ میراتھانہ ڈی ایس پی آفس کے بالکل ساتھ ہی تھا۔میری تعیناتی اگرچہ تھانے میں تھی لیکن ڈپٹی صاحب کمال شفقت سے روز مجھے اپنے آفس بلا لیتے اور تھانیداری کے ’’ دائو پیچ ‘‘ سکھاتے۔مجھے نہیں معلوم کہ کونسی نیکی میرے ’’ آگے ‘‘ آ گئی کہ اوائلِ ملازمت میں ہی مجھے ایسے باکمال افسر بطور استاد میسّر آ گئے۔چوہدری صاحب بڑی توجہ سے میری تربیت کرتے ۔انہیں میرے اندر اُس جانشین کی تلاش تھی جو ریٹائرمنٹ کے بعداُن کے ’’مشن‘‘ کو جاری رکھ سکے۔اُن کی تمام عمر دشتِ پولیس کی سیّاحی میںگزری تھی، کانسٹیبل سے ترقی کرتے ڈی ایس پی بنے ۔کامل بیس سال وہ مختلف تھانوں میں ایس ۔ایچ ۔او ر ہے۔انتہائی کامیاب پولیس افسر تھے۔مجرم سے شدید نفرت تھی لیکن اس سے زیادہ مدّعی سے۔۔بطور ایس ایچ او ان کے پاس کوئی سائل آ جاتا تو ان کے’’ حُسنِ سلوک ‘‘ اور ا ندازِ تفتیش سے اسے گمان گذرتا کہ واردات کی ملی بھگت میں وہ خود بھی شامل ہے۔لیکن ’ ستم ‘ یہ تھا کہ مدعی کو خاصا رگڑا دینے کے بعد اصل مجرم بھی پکڑ لیتے۔ان کے انصاف کے ’’ بلڈوزر ‘‘ تلے مدّعی، ملزم اور ان کا اپنا کردار۔سب کُچھ کُچلا جاتا۔ایسا ظالمانہ انصاف کہیں اور دیکھنے کو نہ ملتا۔چوہدری صاحب کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ اب پولیس کی وہ عزّت نہیں رہی جو اُن کی جوانی کے زمانے میں تھی۔کہتے تھے، ’’ کیا ’’ بھلا ‘‘ زمانہ تھا جب ایک سپاہی پورے گائوں کو آگے لگا لیتا تھا۔ چوہدری صاحب سراپا پولیس تھے۔ عہدِ جوانی میں بڑے جابر تھانیدار رہے۔ ان کے مطابق ،سنگین مجرموں پر تشددکے کئی انداز انہوں نے خود متعارف کروائے تھے۔پہلی لڑائی کی ’’ شانِ نزول ‘‘ کُچھ یوں بتاتے کہ رات گئے وہ تھانے سے فارغ ہو کر گھر آئے۔ حّجلہ عروسی میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ بیگم کا گِفٹ تو وہ تھانے ہی بھول آئے ہیں۔فوری طور پر اپنے پرانے ملازم بخشو کو تھانے بھجوایاکہ اُن کی ٹیبل کی دوسری دراز میں پڑا گفٹ لے آئے۔ بخشوصاحب ایک دم چُغد!اس کا یہ عالم تھا کہ دماغ کے علاوہ سب ’’ پُرزے‘‘ کام کرتے تھے۔وہ ٹیبل سے گفٹ لینے لگا تو ذرا سی چُوک ہو گئی۔ اس نے ٹیبل کی دوسری دراز کی بجائے پہلی درازکھولی اور اُس میں پڑے رنگین ’ پَنّے ‘ میں لپٹے چَرس کے ’’ لِتر ‘‘ کو گفٹ سمجھ کر گھر لے آیا۔ چوہدری صاحب کی باقی رات کی وضاحت کرتے اور بخشوکے قتل کا منصوبہ بناتے گزری۔ چوہدری صاحب بڑے کرائم فائٹر تھے۔لیکن اُن کی اس فائٹ میں اکثر انصاف Compromise ہو جاتا۔واردات کے بعد فوراً بندہ پکڑ کر اوپر اطلاع دے دیتے،بھلے اس بندے کا واردات سے اتنا ہی تعلق ہوتا جتنا اُن کا اپنا۔ایک دفعہ کسی واردات کے بعد ایسی ہی پھُرتی دکھاتے ہوئے انہوں نے ایک بے گناہ لڑکے کو دھر لیا۔لڑکے کی بیوہ ماں روتی پیٹتی آئی تو اُسے کہنے لگے’ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایک آدھ دن میں اسے چھوڑ دوں گا‘۔ پھر جب اُسی بے قصور لڑکے کو دو تین بعد اُسی جُرم میںجیل بھجوا دیا تو وہ بیوہ پھر فریاد کرتی آئی اور اُن کے دفتر کی دہلیز پہ گر پڑی۔میری اُن سے بے تکلفی تھی۔میں نے کہا ’ سر! یہ بڑا ظُلم ہوا ہے،وہ بیوہ تو مر جائے گی،آپ نے اس سے بچے کو چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا‘‘۔چوہدری صاحب نے یک دم مجھ سے نظریں ہٹائیں اور کہنے لگے، ’’ ہر وعدہ پورا کریں تو کا م نہیں چلتا‘‘۔ چوہدری صاحب ریٹائر ہوکر گھر پہنچے تو وہاں اُن کی حیثیت اک اجنبی کی سی تھی۔زندگی بھران کے اعصاب پر پولیس چھائی رہی۔نہ کوئی فیملی لائف،نہ عزیز داری۔ایک بیٹا تھا جو خود رو پودے کی طرح بڑا ہوا۔۔وہ اسے وقت دے سکے نہ تربیت اور نہ وہ محبت۔گھر میں دولت کی فراوانی تھی ۔چنانچہ صاحبزادہ بڑا ہو ا تو نوجوان نسل کے جملہ عیوب اس میں موجود تھے۔پرلے درجے کا نشہ باز اور چھوٹے بڑے کئی جرائم میں ملوث۔چوہدری صا حب ریٹائر ہوئے تو پیسے کی اس ریل پیل کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔برخوردار نے باپ سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا۔اتفاق سے ان دنوں میں ان کے تھانے کا ایس ایچ او تھا۔اکثر اطلاع ملتی کہ بیٹے نے ان سے بد تمیزی اور مار پیٹ کی ہے ۔ڈپٹی صاحب دورانِ سروس ہی کئی بیماریوں میں مبتلا تھے،ریٹائر ہو ئے تو ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ایک روز مجھے انہوں نے گھر بلایا۔میں گھر گیا تو انہیں پہچان نہ سکا ۔وہ بے حد لاغر و بیمار تھے۔جگر کا عارضہ آخری درجے پر تھا۔مجھے دیکھ کر انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن میں نے انہیں لٹا دیا۔تھوڑی دیر باتیں کرتے رہے اور پھر اچانک کہنے لگے ،’’ بیٹا ! میری ایک بات مانو گے ‘‘ ؟ میں نے فوراًً اثبات میں سر ہلایا۔اس پر انہوں نے کہا، ’’ تم اس علاقے کے ایس ایچ او ہو۔میرے ساتھ وعدہ کرو کہ میرے بیٹے کو میرے جنازے پر نہیں آنے دو گے‘‘۔ ان کے ہونٹ کپکپا اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔میں نے قدرے توقف کیا تو انہوں نے بہت بے چینی سے دوبارہ یہ وعدہ کرنے کو کہا۔اس پر میں نے اثبات میں سر ہلاتے ان سے وعدہ کر لیا۔انہوں نے پاس بیٹھے بخشو کی طرف دیکھا گویا اسے گواہ بنا رہے ہوں۔تھوڑی دیر اور بیٹھ کر میں چلا آیا۔ چند دن بعد چوہدری صاحب کا انتقال ہو گیا۔ جنازہ اُٹھا تومیرے ساتھ کاندھا دینے والوں میں ان کا بیٹا بھی شامل تھا۔تدفین کے بعد ہم قبر پر کھڑے تھے کہ بخشو میرے پاس آیا او ر اُس نے آہستہ سے مجھے کہا، ’’آپ نے وعدہ کیا تھا کہ چوہدری صاحب کا بیٹا جنازے میں نہیں آئے گا‘‘؟۔ میں نے چوہدری صاحب کی قبر سے نظرہٹاتے ہو ئے کہا، ’’ ہر وعدہ پورا کریں تو کام نہیں چلتا ‘‘۔