ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا‘ ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی ’’محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے۔ ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے ’’بات یوں ہے کہ ہم اپنے وطن سے وابستہ ہر شے سے وابستہ و پیوستہ ہی نہیں بہت جذباتی اور جنونی ہیں۔ تمام معیارات کو پس پشت ڈال کر سوچتے ہیں۔ اب آپ کرکٹ کے معاملہ ہی کو لے لیجیے کہ ہم اپنی محبت میں سامنے کی چیز ماننے کے لئے تیار نہیں کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم ہم سے بدرجہا بہتر ہے اور اسی بنیاد پر وہ ورلڈ کپ کا میچ ہم سے جیت گئی اور پھر یہ کوئی نئی بات بھی نہیں‘ پچھلے چھ ورلڈ کپ میں وہ ہم سے جیتتی آئی ہے۔ ان کی بیٹنگ لائن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ویسے بھی ان کا ملک ہم سے آٹھ گنا بڑا ہے اور پھر وہاں انتخاب معیار اور کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ کروا کے ٹیلنٹ ہنٹنگ کی جاتی ہے۔ ان کو حکومت کا اعتماد حاصل ہے۔ ہماری پرچی چلتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ہونہار محمد رضوان جیسا سنچری میکر نظر انداز نہ کیا جاتا۔ کرکٹ کے لوگ چیختے ہی رہ گئے مگر سب صحرا میں طوطی کی آواز کے مصداق ٹھہرے۔ انہوں نے محمد آصف کو ترجیح دی اور وہ ہمیں لے بیٹھا۔ اس نے اتنا آسان کیچ آسٹریلیا کے خلاف ڈراپ کیا کہ سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ مجھے یاد آیا کہ ایسے آسان کیچ کے حوالے سے جیفری بائیکاٹ کہا کرتا تھا کہ ایسا کیچ تو میری نانی بھی پکڑ سکتی ہے۔ ایک تو اس نے کیچ ڈراپ کیا اور پھر خود بھی اپنی بیٹنگ میں کچھ نہ کر سکا اور جتنا آسان کیچ چھوڑا تھا اتنا ہی آسان کیچ سلپ میں دے کر پیویلین واپس آ گیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہی نہیں۔ آپ امام الحق کو دیکھیں کہ وہ لیگ کی طرف کھیلتے ہوئے ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی آئوٹ ہوا اور وہی غلطی اس نے آسٹریلیا کے خلاف دہرائی۔ اس طرف بال کلوز کو لگی اور کیپر کے ہاتھ میں یہ اچانک ہی نہیں ہوا‘ اس کی یہ کمزوری ان کے ہاتھ لگی۔ وہ بار بار وہی کھلا رہے تھے اور موصوف کھیل رہے تھے۔ حفیظ پروفیسر کا حال دیکھیں کہ آسٹریلیا کے خلاف جہاں سنگل سنگل سے کام چل رہا تھا۔ ایک فل ٹاس بال کو چھکے کے لئے اٹھا دیا۔ کیچ ہوئے اور پورے میچ کا بیڑا غرق کر دیا۔ بھارت کے خلاف بھی اس نے پتہ نہیں کس بدحواسی میں بال اٹھا کر بھارتی فیلڈر کے ہاتھ میں دے دی۔ سب سے لطف کی بات تو سب سے سینئر اور تجربہ کار شعیب ملک کا آئوٹ ہونا تھا کہ لگاتار دوسری مرتبہ ہٹ وکٹ ہوا۔ لگتا ہے اس کے ہاتھوں میں رعشا آ گیا ہے اور اس کی بیٹ پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ اسے کرکٹ سے توبہ کر لینی چاہیے مگر اس سے بھی کیا تلافی ہو گی: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کے دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب فضول بحث میں وقت ضائع مت کریں کہ عمران خاں نے فیلڈنگ کا مشورہ دیا تھا جسے کوچ اور سرفراز نے مانا نہیں۔ بات یہ ہے کہ میچ کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں۔ سرفراز میں اگر احتیاط یا بزدلی موجود ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہم اچھے رنز کا تعاقب کرنے والے نہیں ہیں مگر بھارت کے خلاف فخر اور بابر اعظم نے میچ تو ایک دفعہ بنا دیا تھا اور امید نظر آنے لگی تھی۔ اتفاق سے بابر اعظم آئوٹ ہوئے اور یہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ سچی بات یہ کہ پاکستان کی پوری ٹیم میں ایک بابر اعظم ہی تو بڑا بیٹسمین نظر آتا ہے۔ بال کو میرٹ پر کھیلتا ہے۔ فخر زمان کھیلے تو دھڑکا لگا رہتا ہے باقی ریلو کٹوں کی بات ہی کیا کرنی۔ اب تو فردوس عاشق اعوان بھی ٹیم پر تبصرہ فرما رہی ہیں اور مشورے دے رہی ہیں لیکن وہ اسی بات کو لے کر آگے چلتی ہیں جو عمران خان کے منہ سے نکلی ہو۔ ایک انکشاف محترمہ نے ضرور کیا کہ انہوں نے آل رائونڈر کے طور پر کرکٹ کھیلی۔ یہ بات درست ہے کہ سیاست میں بھی وہ آل رائونڈر ہی ہیں۔ کتنی پارٹیوں سے وہ رائونڈ لگا کر آئی ہیں۔ ویسے وہ کرکٹ کی بجائے فٹ بال میں گول کیپر ہوتیں تو کامیاب ہوتیں۔ بائولنگ میں محمد عامر نے سچ مچ کمال کر دکھایا کہ بھارتی سورموں کو باندھ کر رکھا اور اسی طرح حماد وسیم نے اچھی بالنگ کی مگر حسن کو انہوں نے جی بھر کر دھویا اور حرام ہے کہ وہ بال باہر پھینکنے سے باز آیا ہو۔ آپ روہت شرما کی بیٹنگ دیکھیں وہ کس طرح بلے بازی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ہمارے کھلاڑی نفسیاتی طور پر سخت بوندے ہوئے تھے آغاز ہی میں ان کا ایک آسان رن آئوٹ ہم نے ضائع کیا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی ہے آپ نے کپتان بنا رکھا ہے۔ اب یہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ شعیب بھی رات کو شیشہ کلب میں تھے اور سرفراز بھی رات بھر گھوم رہے تھے اور اس کی جمائیاں لیتے ہوئے تصویر دکھائی گئی۔ بھائی جمائیاں تو وہ اس لئے لے رہا تھا کہ بھارت نے انہیں تھکا ہی اتنا دیا تھا: جل ہی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی حکومت کے نمائندے اب کرکٹ پر تبصرہ کرنا چھوڑیں کہ کس کو بالنگ کرنی چاہیے تھی اور کس کو نہیں مزید یہ کہ عمران خان کے مشورے کو نظر انداز کیا گیا وغیرہ وغیرہ وہ اپنے میچ کی طرف توجہ دیں جو اس وقت اپوزیشن سے پڑا ہوا ہے اور وہ یونائٹیڈ الیون یا میثاق الیون بنا رہے ہیں۔ مریم اور بلاول کی ملاقات جو جاتی عمرہ میں ہوئی نئی سیاست بلکہ نئی نسل کی سیاست کا آغاز ہے۔ ابھی میں پڑھ رہا تھا کہ عمران کے بچے بھی عمران خان کے پاس بنی گالہ پہنچ گئے ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ کہیں خان صاحب دشمنوں کی نئی نسل کے مقابلے میں اپنے وارث نہ اتار لیں کہ یوٹرن لینا تو ان کے نزدیک سمجھداری اور لیاقت کی نشانی ہے۔ ویسے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو کوئی بری بات نہیں‘ ہم لوگ ویسے بھی حکمرانوں کی نئی پنیری کی آبیاری کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہ جدی پشتی حکمرانوں اور ان کی رعایا کا معاملہ ہے۔ یہ آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یہ ایک رومانس ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا وگرنہ اعتزاز جیسا آکڑ خاں اور پڑھا لکھا بلاول بچے کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا۔ اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے حکومت خوش ہے کہ لوگ کھیل تماشے میں لگے ہوئے ہیں اور انہیں نہ بجلی گرنے کا احساس ہوتا ہے اور نہ گرانی کے کوڑے ان پر اثر کرتے ہیں۔ ایک بھی چیز ایسی نہیں کہ جو فرحت بخش ہو اور سکون آور ہو۔ ضرورت کی سب اشیا مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں کہ سب اشیا کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ لیکن سب حفاظتی تدابیر کر لیتے ہیں۔ درزی پر ٹیکس لگائیں گے تو وہ سلائی ہزار کی بجائے بارہ سو کر دے گا۔ تنخواہ دار اضافی دو سو کہاں سے لائے گا؟ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کرکٹ کو اب گولی ماریں اور عوام کو بھی گولیاں دینا بند کریں کوئی ٹھوس معاشی پیکج لائیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا