این آر او کا ذکر باردگر چلا تو نہ جانے پرویز مشرف کیوں یاد آئے: وہ جو کہتا ہے کہ انصاف ملے گا سب کو اس نے منصف کو بھی سولی پر چڑھا رکھا ہے اس نے چوروں سے سرعام شراکت کی ہے اس نے قاتل کو بھی مسند پہ بٹھا رکھا ہے بلاول بھٹو کی طرف سے خان صاحب پر تیر اندازی کیسے بروقت ہے کہ جو تیر خطا ہوتا ہے وہ بھی خان صاحب کو جا لگتا ہے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ فی الحال تو گونگلوئوں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ نیم دروں نیم بروں کی صورت حال ہے مگر کچھ ہے چھپائے نہیں چھپتا کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے۔ مگر اس حقیقت یا بات پر ہنسی اس لئے آتی ہے کہ این آر او کی باگزشت بی بی بے نظیر کے عہد میں جا پہنچتی ہے۔ ہائے ہائے قتیل شفائی نے کیا خوب کہا تھا: ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل اپنے غموں کو روتے ہیں لے کر کسی کا نام وہ این آر او کس کو یاد نہیں جس سے کتنے ہی لوگ فیض یاب ہوئے کہ جس سے مشرف نے اپنے انجام سے بچنے کیلئے بینظیر سمیت کئیوں کو گرین سنگل دیدی کہ سب کھایا پیا معاف اور نئے سرے سے آپ کھانے کام میں جت جائیں۔ یہاں تک ہی نہیں کرپشن کے لوٹے ہوئے مال کو عدالتی طریقہ سے جائز قرار دلوا کرہضم کرنے کا پروگرام بنایا گیا اور کسی کے چہرے پر عرف ندامت تک نہیں تھا۔ سبحان اللہ کرپشن کو قانونی جواز فراہم کرنے کی ناقابل یقین کاوش ۔ جو کسی وجہ سے رہ گئی مجھے پیپلز پارٹی کاوہ رہنما بھی یاد ہے جس نے کہا تھا ہمیں بھی کرپشن کی اجازت دی جائے۔ خواجہ آصف بھی بولے ہیں آج مودی کا یار کون؟ اچانک ریمنڈ ڈیوس یاد آ گیا پھر اس حرکت کے خلاف احتجاج کرنے والے دھر لئے گئے۔ اس کے علاوہ آلو گوشت کون بھول سکتا ہے کہ تم بھی کھاتے ہو اور ہم بھی۔ سیفما میں کی گئی نواز شریف کی تقریر سیدھی سیدھی دو قومی نظریہ کی دھجیاں اڑانے کے مترادف تھی۔ لگتا ہے سب کی پالیسی ایک ہی ہوتی ہے۔ اس پر عملدرآمد کرانے والے عمل کروا لیتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تخت نشین کون ہے۔ اب صرف بہانہ سازی ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عالمی حکم نامہ نہ مانا تو کشمیر پر ہمارا موقف کمزور ہو جائے گا۔ واہ واہ کون سا موقف ؟ اور کون سی کمزوری؟ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ ویسے کم از کم مجھے تو کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ قومی اسمبلی میں بھارتی جاسوس کی اپیل سے متعلق آرڈی ننس پیش کیا گیا اور اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی۔اپوزیشن نے تو ہمیشہ عوام کی آواز ہونا ہے۔ اگر ن لیگ یہ کر رہی ہوتی تو پی ٹی آئی ہنگامہ برپا کرتی۔ حکومت میں آ کر ذمہ داریاں بدل جاتی ہیں۔ یہ کوئی رومانس نہیں یا کوئی آئیڈیل ازم نہیں۔ یہ نفس کا چارہ ہے اور سوچ کی بے حمیتی ہے۔ ابھی گاجر آگے ہے اور سٹیک پیچھے۔ کیا انگریزی محاورہ ہے like a do like stick حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے: شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو معاملات گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں دوسرے لفظوں میں حکومت کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں معلوم نہیں خان صاحب کس معیشت کی بات کر رہے ہیں کہ جسے وہ دوبارہ مستحکم کریں گے ان کے بھی سارے منصوبے ہی منصوبے ہیں یہ کریں گے وہ کریں گے یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ آسمان سے ستارے توڑ کر لانے والوں کو زمینی حقائق معلوم نہیں یا پھر بہت اچھی طرح معلوم ہیں: آپ اپنے محلے میں سٹے والے سے روک کر سٹہ خریدیں ۔ جناب ! بچے بھی دہائی دے رہے ہیں کہ پندرہ بیس روپے کا سٹہ اب تیس روپے کا ہو چکا اسی مناسبت سے سب کچھ بڑھ گیا ہے۔ بچوں کے بسکٹ مہنگے اور سمارٹ ہو گئے۔ انہیں بسکٹ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ جو ناشتہ دوصد روپے میں آتا تھا اب تین سو روپے میں آتا ہے کہاں گئے وہ دعوے کہ نان روٹی کی قیمتیں بڑھانے والوں کو آپ دیکھ لیں گے۔ آپ دیکھتے جائیے آپ کی حیثیت پر کاہ کی بھی نہیں۔ وہ جو شوکت تھانوی نے ایک ناول 24گھنٹے میں لکھا تھا بکواس‘ احمد مشتاق نے کہا تھا بکواس‘ نام تو شوکت کی کلیات کا ہونا چاہیے تھا فی البدیہہ شعر ہو گیا: جو کچھ کہا ہے میں نے یہ بکواس ہی تو ہے اور جو سنا ہے آپ نے ضائع کیا ہے وقت میرے معزز قارئین!آپ پریشان نہ ہوں بس میں جذباتی ہو گیا کہ آخر ہم کریں بھی کیا جو بھی آتا ہے ہمیں اور رلا جاتا ہے مہنگائی روز افزوں ہے ہر کوئی من مانی کر رہا ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ پی ٹی آئی کے اپنے نظریاتی کارکن بھی پیچھے ہٹ گئے بلکہ صورتحال نے انہیں خود ہی پسپا کر دیا ہے کہ کھیر کھان نوں باندری تے ڈنڈے کھان نوں ریچھ۔ یعنی حلوہ اور کھیر تو تماشے کا بندر کھائے اور مار ریچھ کو پڑے جو نظام چلانے کے لئے لائے گئے ہیں ان کی جڑیں باہر ہیں: اب تماشہ نہیں دیکھا جاتا نوٹ پھینکوں کہ مداری جائے اب آخر میں کچھ تعمیری کام کے حوالے سے بھی بات ہو جائے کہ لاہور میں ایک کالونی مرغزار بھی ہے جو آہستہ آہستہ رول ماڈل بنتی جا رہی ہے۔ چودھری محمد شہزاد چیمہ نے اتنا کام کروایا ہے کہ کام خود بولتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ سڑکوں اور پارکوں سے فارغ ہو کر اس نے اب محلوں کے نام تک بورڈوں پر لکھوا کر لگا دیے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرے محلے کے کونے پر جو بورڈ ہے اس پر علامہ محمد اقبال سٹریٹ لکھا ہوا۔ ساتھ کا پچھلا محلہ قائد اعظم سٹریٹ اور اسی طرح دوسرے محلے موسوم ہو گئے یہ ایک اچھی سوچ ہے چودھری محمد شہزاد چیمہ نے دو جگہ پر ارطغرل کے گھوڑے والے مجسمے بھی آویزاں کروائے ہیں۔ کالونی کا گیٹ شاندار انداز میں بن رہا ہے گرین بیلٹس اور کارنر گریزی پھر اس میں ہرن ‘زرافہ اور دوسرے جانوروں کے مجسمے سب کچھ اچھا لگتاہے۔ مزے کی بات یہ کہ صدر شہزاد چیمہ کا کیا کہنا ہے کہ وہ اپنے پلے سے تو خرچ نہیں کر رہا۔ کالونی ممبر کے فنڈز میں جو پہلے کہیں لیک ہو رہے تھے اب استعمال ہو رہے ہیں۔اس کا حسن جمال اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ سن کر مجھے اور خوشی ہوئی کہ وہ اپنی کالونی کو سنوارنے کے بعد باہر 80فٹ روڈ پر بھی کام کروائیں گے۔ میں یہ ہوائی باتیں نہیں لکھ رہا۔ کوئی بھی تصدیق کر سکتا ہے ایسے لوگ ہی اس قوم و ملک کے محسن ہیں۔ اگر یہ سوچ عام ہو جائے تو سچ مچ قائد اور اقبال کا پاکستان بن جائے: آنکھ میں روشن چاند ستارا دل میں سبز امنگ آئو چلیں ہم پرچم لے کر اک دوجے کے سنگ