برصغیر کے مزاج میں انتہا پسندی اور غلو ہے۔یہاںہجو اور قصیدے کے بیچ کچھ تلاش کرنا آسان کام نہیں رہا۔یہی معاملہ باچا خان مرحوم کے ساتھ ہوا،جو انہیں چاہتے ہیں وہ عظمت کا ہمالہ تراشے بیٹھے ہیں اور ان میں کسی غلطی کا احتمال تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور جو انہیں پسند نہیں کرتے وہ ان کی خوبیوں کے اعتراف سے بھی قاصر ہیں۔نفرت اور عقیدت سے ہٹ کر،آئیے آج،باچا خان کی’’ آپ بیتی‘‘ کی روشنی میں باچا خان کو تلاش کرتے ہیں۔ ’’آپ بیتی‘‘ کو ہند پاکٹ بکس نے 1969 میں دلی سے شائع کیا ۔250 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا خلاصہ ایک کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے میں اس تحریر میں ’’ حاصل مطالعہ ‘‘ کے چند نکات تک محدود رہوں گا۔ ’’ آپ بیتی ‘‘ کے مطالعے سے باچا خان کے بارے میں پہلا تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شدید قسم کے قوم پرست پشتون تھے۔ تعلیم اور سماج کی تہذیب کے حوالے سے ان کی کاوشیں قابل تحسین تھیں لیکن ان کا مخاطب صرف ایک قوم تھی۔ وہ اگر پشتون قوم پرستی سے بلند ہو جاتے تو ان کے پیغام کی آفاقیت بہت بڑھ جاتی۔انہوں نے تعلیم و تہذیب کا جو پرچم تھاما تھا وہ ایک ہمہ گیر مشن تھا لیکن یہ پرچم تھام کر وہ صرف ایک قوم کی عصبیت کے دائرے میں سمٹ گئے ۔ گاہے یوں محسوس ہوتا ہے ان کی اولین ترجیح علم اور تربیت نہیں تھی،ان کی اولین ترجیح ان کی عصبیت تھی۔ ہو سکتا ہے بعض لوگوں کو بظاہر یہ معمولی سی بات لگے لیکن اس میں جہان معنی ہے۔ ترجیح جب علم و تربیت ہو تو افتاد طبع میں وسعت اور آفاقیت آتی ہے،ترجیح جب عصبیت ہو تو وہ کسی آفاقی پیغام کو بھی قوم پرستی کے دائرے تک محدود کر دیتی ہے۔ یہی حادثہ باچا خان کے ساتھ ہوا۔ کتاب کے آغاز ہی میں باچا خان کے لہجے کی تلخی قاری کو حیران کر دیتی ہے۔ باچا خان کو مقامی مولوی صاحبان سے شکایت تھی کہ وہ دنیاوی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ اس شکوے کو جس انداز سے انہوں نے بیان کیا ہے وہ ان کے مقام سے جچتا نہیں۔انہوں نے اس طبقے کے لیے ’’ ملا ملانٹے‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور بار بار کی ہے۔ملا ملانٹے ، ملا ملونٹے ، مسجد کے ملانٹے جیسی اصطلاحات مطالعے کو اس کے آغاز ہی سے بوجھل کر دیتی ہیں۔باچا خان مولوی حضرات کے بارے میں بھی توازن قائم نہ رکھ پائے اور پہلے وہ پشتون دائرہ کار تک محدود ہوئے اب وہ پشتون دائرے کے اندر ’’ ملا ملونٹوں‘‘ کو ایک طرف دھکیل کر ایک نیا دائرہ بنا بیٹھے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ان کی فکر بعد میں کسی علمی تحریک کا روپ دھارنے کی بجائے ایک مخصوص لسانی اور سیاسی عصبیت تک محدود ہو کر رہ گئی۔ پنجاب اور پنجابیوں کے بارے میں بھی باچا خان کا رویہ حیران کن ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’پنجابی ایک عجیب و غریب قوم ہیں‘‘۔ انگریز کے زمانے میں پشتون علاقوں میں تعلیم کی کمی کا ذمہ دار بھی وہ پنجاب کو ٹھہراتے ہوئے لکھتے ہیں: پنجابیوں کو ہم سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ ہمارے ہاں محکمہ تعلیم کے تمام افسر پنجابی تھے اور اسی وجہ سے ہمارے وطن میں باقاعدہ طور پر تعلیم کا بندو بست نہ تھا‘‘۔ اب یہ وہ الزام ہے جس کا دلیل کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں کیونکہ خود باچا خان اسی کتاب میں اس کے اسباب بیان کر چکے اور ان اسباب میں پنجاب یا پنجابی کا کہیں کوئی قصور سامنے نہیں آتا۔ باچا خان مرحوم کے ہاں رد عمل بہت ہے۔ مسجد کا مولوی مارتا بہت تھا تو ملا ملونٹا ہو گیا۔ اوائل میں مسلم لیگ کو ایک پیغام بھیجا جس کا مسلم لیگ نے مثبت جواب نہ دیا تو رد عمل میں کانگریس سے قربت اختیار کر لی۔ پنجاب سے نفرت کا بیانیہ کھڑا کیا تو پشتون علاقوں میں تعلیمی بندو بست نہ ہونے کا الزام بھی اس پر لگا دیا۔غالبا اسی رد عمل نے ان کی سیاسی زندگی کو بھی تضادات سے بھر دیا اور ایک ایسا آدمی جو درد دل رکھتا تھا اور پورے پاکستان میں علمی انقلاب برپا کر سکتا تھا رد عمل کے دائروں میں سمٹتا چلا گیا۔ کتاب کے آخر میں یوم پختونستان پر کابل میں کی گئی تقاریر بھی موجود ہیں۔ ان میں باچا خان حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں ، جہلم سے ہرات تک کے علاقے پر افغانستان کا حق جتاتے ہیں ، افغان حکومت کا شکریہ ادا کر تے ہیں کہ وہ ان کی مدد کر رہی ہے اور چین سے کہتے ہیں کہ پاکستان کو سمجھائو اور ہمیں حق خود ارادیت لے کر دے دو ورنہ خون بہے گا۔باچا خان مرحوم متحدہ ہندوستان کا حصہ رہنے پر تو رضامند تھے لیکن جب متحدہ ہندوستان میں نہ جا سکے اور پاکستان بن گیا تو انہوں نے حق خو د ارادیت کے نام پر پشتونون کو افغانستان میں ضم کرنے کا پرچم اٹھا لیا۔ یعنی متحدہ ہندوستان رہتا تو پشتون حق خودارادیت کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اب جب پاکستان بن گیا تو اس میں رہنا قبول نہیں تھا۔ افغانستان میں کھڑے ہو کر وہ بتاتے ہیں کہ دریائے آمو تک پٹھانوں کا ملک ہے اور اس ملک میں جو بھی رہتا ہے وہ پشتون ہے۔جیسے امریکہ میں رہنے والا امریکی اور جرمنی میں رہنے والا جرمن ہے بھلا وہ کسی بھی قوم سے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن یہ اصول وہ پاکستان میں ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں رہنا والا کسی بھی قومیت کا وہ وہ صرف پاکستانی ہے۔غور کیا جائے تویہ بھی ان کے مزاج کے رد عمل کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ یہ آپ بیتی ان الفاظ کے ساتھ ختم ہوتی ہے :’’ پاکستان سے دوستی ممکن ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہ آپ بیتی پڑھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں باچا خان کی فکر کی راہ میں ان کی افتاد طبع حائل نہ ہوئی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔