دوستو! اب تو یہ عزیزی 2021 بھی ساڑھے چھے مہینے کا ہو چلا، اہلَ نظر کہتے ہیں کہ یہ بھی شکل و شباہت اور عادات و اطوار کے اعتبار سے ہُو بہو اپنے بڑے بھائی 2020 پہ گیا ہے۔ وہی کرونا زدگی، وہی کٹھورپن، وہی سنگ دلی۔ ان دونوں کی نگرانی میں زندگی اور موت نے سرِ عام آنکھ مچولی کھیلی… ان کے ہوتے ہوئے وزارتِ داخلہ میں شیخ رشید آیا… نون کی زبان سے بی بی زندہ باد کے نعرے لگے… غریبوں کا دل جلانے کے لیے اربوں روپے کے جہیز مع محل نما گھر کے، بختاور بھٹو کی شاد ی آئی… پی پی پی کی سیاست میں تمام سینئر کارکنان کو ایک بار پھر اُن کی اوقات یاد دلانے کے لیے آصفہ زرداری لائی گئی…گالی کو پنجاب کا کلچر قرار دینے والا ہرنولہ آیا…لاہور میں انھی پنجابیوں کو گالیاں دینے کے لیے محمود اچکزئی آیا…سوشل میڈیا پہ سیاسی دولھے کی انوکھی خوش خبری کے ساتھ وزیروں کے گھروں میں ہلچل مچانے کو حریم شاہ آئی… کسی اور کی مرضی سے ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ لگانے والی ماروی سرمد پھر آئی… جواب میں چینل چینل کھیلتا اور غصے سے کھَولتا دانش مر گئی یامر گیا والا خلیل الرحمن قمر بھی آیا۔سٹیفن سیکر کی ہارڈ ٹاک کی زَد میں اسحاق ڈار آیا… امریکا میں پاکستانی طرز کا الیکشن کا سیاپا آیا… بڑے صحافتی گھرانے کا میر شکیل الرحمن زیرِ نیب آیا…سدا کے مظلوم و مغموم کشمیریوں پہ شر پسند مودی اور گائے پرست ہندوؤں کا عتاب بار بار آیا…مشرقی پنجاب میں ہمارے پڑوسی سکھ کسانوں کا بحران آیا… گیارہ کے بعد سات کھلاڑیوں والی ٹیم کا کپتان بن کے فضل الرحمن آیا… ایاز صادق کا منھ سے پھسل جانے والا بیان آیا … مسلسل دوسرے سال حج کا ناغہ آیا… مسجدوں، مزاروں پہ تالا آیا… کرونا کا پھوپھی زاد ڈیلٹا آیا…نئے سے نئے انداز میںلاک ڈاؤن، ماسک، قرنطینہ اور سینی ٹائزر آئے … بہت سے لوگوں کو شرم آئی، حیا آئی، موت آئی، دل میں برے برے خیال آئے … نہیں آیا تو بیوی کی فوتگی پہ عابد شیر علی نہیں آیا اور وہ دو سمدھی نہیں آئے جو کبھی دوائی لینے کے بہانے لندن گئے تھے۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ہر ایک کے سامنے دُم ہلاتی پاکستانی سیاست کی تایخ میں پہلی بار ایک دھڑلّے دار اِنکار (Absolutely Not) آیا۔ گلگت بلتستان کے الیکشن کے بعد کشمیر کے ٹھنڈے ٹھار موسم میں گرما گرم جھوٹ بولنے کامقابلہ آیا۔ سب کچھ آیا لیکن گیا صرف ایک امریکا ہی ہے، وہ بھی اس طرح کہ ترقی پسندوں کا یہ شعر صحیح معنوں میں پہلی بارسچ ہوتا دکھائی دیا: گیا دورِ سرمایہ داری گیا/تماشا دکھا کر مداری گیا پاکستانی انتخابات میں ہونے والی مارا ماری دیکھ کیحکیم جی فرماتے ہیں کہ اب تو ہماری اخلاقیات کا اس حد تک دیوالیہ نکل چکا ہے کہ ہمیں سچ اور ایمان داری کی چھوٹی سے چھوٹی مثال ڈھونڈنے کے لیے بھی کئی سو سال قبل عبدالقادر جیلانیؒ کے بچپن میں پیش آئے ڈاکوؤں والے واقعے سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ادھر ہمارے چینلوں اور سروں پہ بیٹھے بزعمِ خود دانشور اپنی ہر گفتگو، اپنی ہر تحریر میں زبانی زبانی عمرِ فاروقؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ سے ادھر کی بات نہیں کرتے اور عملی طور پر آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مفادات کو آنکھ کا سُرمہ بنائے رہتے ہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ مرزا غالب نے ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی!! ‘‘ والا مصرع خود کو مخاطب کر کے ضرور لکھا تھا لیکن اپنے لیے ہر گز نہیں لکھا تھا۔ اسے ہم اپنی بے نیازی کہیں، یا کفایت شعاری، ہمیں کوئی چیز سیاق و سباق کے بغیر سمجھ نہیں آتی بلکہ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ سیاق و سباق کے ساتھ بھی سمجھ نہیں آتی۔ آئیے گزشتہ کچھ عرصے میں قومی سطح کے اخبارات میں شایع ہونے والی چند خبریں پڑھ کے ذرا ان کے معانی و مقاصد پہ غور کریں: اخبار میں درد مندانہ اپیل شایع ہوتی ہے کہ ’صبح حمزہ اور شہباز کی پیشی ہے، کارکن پہنچیں!‘… کبھی خبر چھپتی ہے کہ بے نظیر کی برسی منانے کے لیے ایک سو ایکڑ فصل ضائع کر دی گئی… تیسری جانب اپنے بھائی سراج الحق کے روزانہ کے بیا نات دیکھیں تو لگتا ہے بھلے وقتوں میں ایک ہی بیان کی ۳۶۵ کاپیاں کروا کے رکھ لی گئی تھیں۔ ایک اخبار میں عدالتی بیان شایع ہوا کہ پی پی پی سندھ میں اپنے تیرہ سالہ دورِ حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کرے!! اِس کے جواب میں تو کسی صاحبِ نظر نے عدالت کو مطلع کیا ہے کہ آپ کارکردگی کی بات کرتے ہیں، ہم نے تو سنا ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن بلاول کے بیانات سن سن کے حلف اٹھانے کے بعد سے سندھ کا دورہ کرنے کو بے تاب ہیں، جہاں وہ سڑکوں، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا عمیق جائزہ لینے کے بعد پہلے تو رشک سے قربان ہوجائیں گے اور پھر واپس امریکا جاتے ہی نہ صرف وہاں اسی طرح کا سسٹم متعارف کرانے کی کوشش کریں گے بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہاں کے کچھ لائق سیاست دانوں کو اپنے ذاتی طیارے پہ ساتھ ہی لیتے جائیں۔ دوستو! یہ تو ہمارے معمول کے ملکی حالات ہیں اس کے علاوہ باقی سب خیریت ہے!! بقول لالہ بسمل: سامنے میرے پڑی ہوئی دادا جی کی میّت ہے/باقی سب خیریت ہے!/یہ مَیں تم کوکیوں بتلاؤں ، میری کیسی نیت ہے/سمجھو سب خیریت ہے!/بائیس قبیلے حاکم ہیں اور بائیس کروڑ رعیت ہے/باقی سب خیریت ہے! اب چلتے چلتے کچھ غیر سیاسی خبروں پہ نظر کرتے چلیں۔ ایک اداکار کو شکایت ہے کہ اس کی نئی نویلی بیگم کو کافی چرانے کی عادت ہے، جس پرمرزا مُفتہ فرماتے ہیں کہ ان صاحب کو خدا کا شکر اداکرنا چاہیے، ورنہ اس عمر میں تو بیویوں کو کافی نہیں بلکہ کافی کچھ چرانے کی عادت ہوتی ہے!! قربانی کی آمد آمد ہے،ان دنوںسعودی عرب میں ساڑھے آٹھ ارب کا اونٹ فروخت ہونے کی خبر بھی گرم ہے، لوگ اسے دنیا کا مہنگا ترین جانور قرار دے رہے ہیں… حکیم جی اس شہ خرچی پر بھی خاموش نہ رہے، فرمانے لگے: اربوں کا حساب عربوں پہ چھوڑیں، آپ اپنے سفید ہاتھیوں پہ نظر ڈالیں جن کے اثاثوںکی قیمت مذکورہ اونٹ سن لے تو بے چارہ اُلٹے پاؤںسلام کرنے کو حاضر ہو جائے۔