معزز قارئین! اِس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادگار ۔دو سیاسی جماعتیں میدانِ سیاست میں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی۔ پی۔ پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی۔پی۔ پی۔ پی) کے صدر جناب آصف علی زرداری ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ’’ پی۔ پی۔ پی۔ ‘‘ کو ’’ تلوار ‘‘ (Sword)اور ’’پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کو ’’تیر‘‘ (Arrow) کے انتخابی نشانات الاٹ کئے ہیں لیکن، آصف زرداری اور بلاول بھٹو زردای کی طرف سے جاری کئے گئے "Ticket Holders" (امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی )کا انتخابی نشان صِرف ’’ تیر‘‘ (Arrow) ہی ہوگا۔ 

 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ، سابق وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں/ ساتھیوں نے جمع ہو کر اُنہیں پارٹی کا چیئرمین منتخب کِیا تھا اور پارٹی کے باقی تمام عہدیدار جنابِ بھٹو نے ہی نامزد کئے تھے ۔ جنابِ بھٹو تاحیات پارٹی کے چیئرمین رہے اور اُن کی پارٹی نے اپنے انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ پر ہی دسمبر 1970 ء اور مارچ 1977ء میں دو بار عام انتخابات میں حصہ لِیا۔ اُس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نشانات میں سے ’’ تلوار‘‘ کا انتخابی نشان حذف کردِیا گیا تھا۔ چنانچہ 2002ء کے عام انتخابات کے موقع پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ 

پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی فرمائش پر بھٹو خاندان کے دو وفاداروں ۔ مخدوم امین فہیم اور راجا پرویز اشرف کی چیئرمین شِپ اور سیکرٹری جنرل شِپ میں میں ایک نئی سیاسی جماعت ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) قائم کی گئی اور اُس پارٹی نے 2002ء کے عام انتخابات میں ’’تیر‘‘ کے انتخابی نشان پر حصہ لیا اور اُس کے بعد 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی ۔ جناب آصف زرداری 9 ستمبر 2008ء سے 9 ستمبر 2013ء تک صدر پاکستان رہے لیکن اُنہوں نے  الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نشانات کی فہرست میں ۔ ’’ تلوار‘‘ کا انتخابی نشان شامل کرانے میں دلچسپی نہیں لی۔ 

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں جنابِ آصف علی زرداری کو ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن، 27 دسمبر 2007ء کو اُن کے قتل کے بعد اُن کی مُبینّہ وصیت کے مطابق جنابِ آصف زرداری نے اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کے نام کے ساتھ بھٹو ؔ کا لاحقہ لگا کر اُسے پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت شریک چیئرپرسن ’’منتخب ‘‘ ہوگئے ۔

معزز قارئین! ایک اور اہم بات کہ ’’ لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے ، 17 مارچ2013ء کو صدر آصف زرداری کے دو عہدے رکھنے پر اُنہیں حکم دِیا تھا کہ وہ 29 مارچ تک اپنے ’’سیاسی عہدے ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی Co- Chairmanship" سے مستعفی ہو جائیں ورنہ، عدالت فیصلہ کرے گی‘‘۔ چنانچہ چیئرمین بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے 22 مارچ ہی کو اعلان کردِیا گیا تھا کہ ’’ صدر آصف زرداری ’’پی۔ پی۔ پی‘‘ کے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں‘‘ ۔ چنانچہ صدر آصف زرداری 2013ء کے عام انتخابات کے دَوران ایوانِ صدر ہی میں محصور رہے اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ۔ طالبان کے خوف سے "Video Link" کے ذریعے ہی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کی انتخابی مہم کی قیادت کرتے رہے۔

21 نومبر 2015ء کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے چیئرمین مخدوم امین فہیم کا انتقال ہوا تو، جنابِ آصف زرداری نے ’’پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کی قیادت سنبھال لی لیکن،اُنہوں نے اپنے لئے "Chairman"  کے بجائے "President"کا عہدہ پسند کِیا۔ اِس وقت صورت یہ ہے کہ جنابِ آصف زرداری ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے صدر ہیں جس کا انتخابی نشان ہے ’’ تیر‘‘۔ جنابِ زرداری اب بھی اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی ’’ پی۔ پی۔ پی ‘‘ کے شریک چیئرمین بھی ہیں اور اُس پارٹی کا انتخابی نشان ہے ’’ تلوار‘‘ ۔ اگر آج محترمہ بے نظیر بھٹو حیات ہوتیں تو، کیا وہ اپنی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کی "Dummy" حیثیت قبول کرلیتیں ؟۔ 

مجھے یاد ہے کہ ’’ جب جنابِ بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے پھانسی دِی گئی تھی تو، اُس کے بعد کئی بار قومی اخبارات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنے قریبی ساتھیوں سے اِس طرح کی گفتگو شائع ہوا کرتی تھی کہ ’’ جب مَیں چاند کی طرف دیکھتی ہُوں تو، مجھے اُس میں ’’پاپا ‘‘ ( جنابِ بھٹو ) نظر آتے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مجھے میرے دو لہوری دوستوں اور (جناب بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی )کے بانی ارکان ، سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ ملک پرویز اختر اور ریٹائرڈ بینکرز سیّد یوسف جعفری نے بتایا تھا کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو، جناب ِ بھٹو نے اُسی وقت پارٹی کا اعلیٰ ترین ادارہ قائم کِیا جِس کا نام تھا۔"Principle Committee" (اصولی کمیٹی ) ۔ 

اصولی کمیٹی کے صِرف تین ارکان تھے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ، جناب محمد حنیف رامے اور ڈاکٹر مبشر حسن ۔ 1970ء کے عام انتخابات سے پہلے اُن دونوں ارکان ہی نے چیئرمین بھٹو کو مشورہ دِیا تھا کہ ’’ جنابِ چیئرمین! آپ کا نام ذوالفقارؔ علی ہے ۔ یعنی۔ ’’حضرت علی ؑ کی تلوار ‘‘ ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر آپ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ، پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان ۔ تلوار ؔ ، رجسٹرڈ کرالیں ؟ ‘‘۔ بھٹو صاحب ’’رضا مند ہوگئے‘‘ ۔ دراصل جنابِ آصف زرداری کا اپنے ’’ روحانی والد‘‘ جنابِ بھٹو کے بارے میں وہ جذبہ نہیں ہے جو، محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا اور بلاول بھٹو زرداری کو تو، جنابِ آصف زرداری نے ابھی تک سیاسی طور پر بالغ ہونے ہی نہیں دِیا؟۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے جنابِ آصف زرداری کی شادی 18 دسمبر 1987ء کو ہُوئی ۔ اُس کے بعد ہی اُنہوں نے اور اُن کے والدِ مرحوم حاکم علی زرداری نے جنابِ بھٹو کو شہیدؔ کہنا شروع کردِیا تھا۔ اِس سے پہلے جب، محترمہ بے نظیر بھٹو کی چیئرپرسن شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کِیا تھا لیکن، نواب شاہ سے جناب حاکم علی زرداری اور جناب آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑا تھا اور دونوں باپ بیٹا ہار گئے تھے۔ 

4 اپریل 2013ء کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی 34 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حاضرین کی معلومات میں اضافہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ میرے ’’ بابا سائیں‘‘ آصف علی زرداری کی طاقت آپ کی سوچ سے زیادہ ہے۔ میرے ’’ بابا سائیں‘ ‘ ایک "Political Scientist" (سیاسی سائنسدان) ہیں اور آئندہ آپ دیکھیں گے کہ ، وہ پاکستان کی سیاست کو کِس طرح اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں! ‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ آج تو مَیں بھی جنابِ آصف زرداری کی ’’ سیاسی سائنس ‘‘ کا قائل ہو گیا ہُوں ، اُنہوں نے کِس خوبصورتی سے جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ کو نیام میں ڈال دِیا ہے ۔ 

یہ تو ، ماشاء اللہ ’’بقیدِ حیات‘‘ جناب بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی ہی بتاسکتے ہیں کہ ’’ اصلی پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان ’’ تلوار‘‘ ۔ ’’رائیگاں ‘‘کیوں گیا ؟‘‘۔مَیں نے کل پھر مولوی نوراُلحسن نیئر کی ’’ نور اُللغات ‘‘ دیکھی اور ’’اوکسفورڈ اردو، انگلش ڈکشنری ‘‘ بھی ۔ ’’رائیگاں ‘‘ کا مطلب ہے ۔ ’’ ایسی بے وقعت چیز جو، اِس قابل ہے کہ سرِ راہ پڑی رہے اور اُس کی کوئی قیمت نہ ہو ‘‘۔ انگریزی میں رائیگاں ؔکے معنی ہیں : ۔ "Useless; Fruitless Vain Unprofitable" ۔شاعر نے نہ جانے کِس موڈ میں اور کِسے مخاطب کر کے کہا تھا کہ…

تیر پر ، تیر چلائو ! تمہیں ڈر کِس کا ہے ؟

دِل یہ کِس کا ہے ، میری جان ! جگر کِس کا ہے!

لیکن، پرسوں ( یکم جولائی کو ) اُن کے حلقۂ انتخاب لیاری ، کراچی کے عوام نے چیئرمین بلاول بھٹو سے کیا کِیا؟۔ 

کوئی بتلائے ؟ کہ ہم بتلائیں کیا؟