میاں نواز شریف کو یہ داد تو دینی چاہیے کہ انہوں نے پاکستان ‘ اس کی عدلیہ‘ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں اپنے خیالات اور جذبات کھل کر بیان کیے۔ چند ماہ قبل انہوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ اپنے سینے میں چھپے راز ظاہر کریں گے۔ بدھ کے روز لندن کے ایک کنونشن میں انہوں نے پاکستان کو ایک بڑی جیل سے تشبیہ دی ‘ دنیا بھر کی دہشت گردی میں ملوث ریاست اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی پناہ گاہ۔ پاک فوج کو انہوں نے سیاست زدہ فوج قرار دیا جس کے سپاہی اور جوان تو قربانیاں دیتے ہیں مگر افسر سیاست اور حکومتوں کی تشکیل و شکست میں بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں میں یہ تفریق آج تک کسی دشمن نے نہیں کی ‘ہمارے دشمن بھی پاک فوج کو ایک متحد‘ مضبوط اور آرمی چیف کی کمان میں کام کرنے والی منظم فورس تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کو انہوں نے پابند سلاسل قرار دیا اور اپنے آپ کو ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جو محض سول بالادستی اورووٹ کی عزت کے لیے اقتدار کو ٹھوکر مار کر اقدار کی سیاست کر رہا ہے۔ ان خیالات اور جذبات کے حامل شخص کو یہ توقع بھی ہے کہ عدالتی فیصلوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے عوام اور ادارے انہیں اندرون ملک فری ہینڈ دیں‘ وطن واپسی پر والہانہ استقبال کیا جائے اور قانون شکنی پر کسی کو کچھ نہ کہا جائے۔ لاہور آمد پر میاں صاحب کا استقبال کیسا ہوتاہے؟ آج شام کو پتہ چل جائے گا۔ مسلم لیگی قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ میاں صاحب کے استقبال میں لیڈروں کو دلچسپی ہے نہ کارکنوں کو اور نہ انتخابی امیدواروں کو‘ پانچ سال تک شریف برادران نے مسلم لیگ اور اس کی کارکن کلاس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب کو یاد ہے۔ میاں نواز شریف سینٹ اور قومی اسمبلی میں اور میاں شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں آناکسر شان سمجھتے تھے۔ کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ تک نہ ہو پاتا اور ان سے ملاقات کے لیے لوگ برسوں ترستے۔ فواد حسن فواد اصل وزیر اعظم تھے اور ان سے وزیروں‘مشیروں کے علاوہ داماد محترم کیپٹن صفدر تک شاکی۔ مرکز اور صوبے میں چند بیورو کریٹس کو شاہی اختیارات حاصل تھے اوروزیر بے چارے ان کے رحم و کرم پر۔ ایک وفاقی وزیر نے مجھے بتایا کہ انہیں اپنے حلقے کے جائز کاموں کے لیے ڈی سی‘ ڈی پی او کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے۔ان حالات میں لیڈر‘ امیدوار اور کارکن استقبال سے گریزاں ہیں تو حیرت انگیز بات نہیں۔ مسلم لیگی لیڈروں نے گرفتاریوں کا واویلا بھی خفت سے بچنے کے لیے مچایا ہے اپنی ناکامی کا ملبہ نگران حکومت پر ڈالنے کی یہ تدبیر خوب ہے۔ تاہم میاں شہباز شریف کے گلے شکوے پر ایک موقف اور بھی ہے۔ عدالتوں سے سزا یافتہ ایک شخص کااستقبال قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں؟ قانون دان ہی بتا سکتے ہیں مگر پنجاب حکومت اور پولیس جو کر رہی ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے لیے حیران کن اور تکلیف دہ کیوں ہے؟۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے استقبال کے لیے آنے والے عوامی تحریک کے کارکنوں سے مسلم لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت کے علاوہ اس کے ماتحت پولیس و انتظامیہ نے جو سلوک کیا وہ میاں شہباز شریف ‘ سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کو بھول گیا؟۔ یہ تو خدا کا شکر ادا کریں کہ پولیس نے ابھی تک مسلم لیگی مرد و خواتین سے وہ سلوک نہیں کیا جو 17جون کو ماڈل ٹائون میں ہوا۔ چودہ لاشیں اٹھیں اور نوے افراد زخمی ہوئے۔2016ء میں خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے قافلے کو پنجاب میں داخلے سے روکنے کے لیے جو بدترین شیلنگ ہوئی اور جس بھونڈے طریقے سے وفاقیت کے تقاضے پامال کیے گئے وہ بھی سب کچھ بھول گیا‘ کیا اس وقت ملک میں جمہوریت تھی یا ایک خاندان کی آمریت؟ لاہور پولیس جو کچھ کر رہی ہے اور جو مزید کریگی یہ وہ بیج ہے جو مسلم لیگ ن نے برسوں تک پنجاب میں بویا۔ آخر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو پنجاب اور سندھ پولیس سے شکائت کیوں ہے؟ اور کسی طرف سے خیبر پختونخواہ پولیس پر یہ اعتراض سامنے کیوں نہیں آیا کہ وہ جانبداری یا لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہی ہے ؟اپنا ہی بویا کاٹتے وقت مسلم لیگی قیادت کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے کہ اسے تیس سال ملے‘ ہر بار نواز شریف اور ان کے نامزد وزراء اعلیٰ نے تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا اور اقدار کی سیاست کا نعرہ بلند ہوا‘ مگر پولیس کو ایک خاندان کے بجائے ریاست اور قانون کا وفادار بنایا جا سکا نہ عوام اور سیاسی کارکنوں سے حسن سلوک کی تربیت دی گئی۔ پریس کانفرنس میں میاں شہباز شریف لاہور پولیس اور نگران حکومت کے امتیازی سلوک کا رونا رو رہے تھے اور میں 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد کے موقع پر جماعت اسلامی کے کارکنوں سے پنجاب حکومت اور پولیس کے وحشیانہ سلوک کی یادوں میں کھویا تھا۔ ابھی تک کسی مسلم لیگی کارکن نے یہ شکائت نہیں کی کہ اس پر پولیس نے تشدد کیا مگر جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے نہتے کارکنوں کو یوں مارا گیا تھا جیسے پاکستانی نہیں کسی دشمن ملک کے شہری اور ریاست کے باغی ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں اور قائدین کا یہی دوہرا معیار بھونڈا اندازجمہوریت کے فروغ و استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس منافقانہ طرز عمل نے جمہوری اقدار و روایات کو پختہ نہیں ہونے دیا۔ اگر مسلم لیگ جمہوری اور قانون پسند جماعت ہوتی تو عدالتی فیصلہ آنے پر اپنے تاحیات قائد کا گریباں پکڑتی کہ آپ نے ہماری ناک کٹوا دی ‘قائد اعظم کی جانشینی کا دعویدار لیڈر آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور بیرون ملک اپنے قیمتی فلیٹس کی جائز خریداری کا ثبوت پیش نہ کرنے کی بنا پر دس سال قید بامشقت پائے ‘باعث ندامت و رسوائی ہے مگر اپنا فرض ادا کرنے اور ملک میں کرپشن و بے ضابطگی سے پاک سیاست و جمہوریت کو پروان چڑھانے کے بجائے پشتینی غلاموں کا جتھہ ایک سزا یافتہ مجرم کو ہیرو بنانے پر تلا ہے اور امن و امان کی صورت حال خراب کر کے عام انتخابات کے پرامن انعقاد میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتا ہے۔ قومی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ کو جمہوریت اس وقت یاد آتی ہے جب وہ اقتدار سے محروم اور اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنستی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو غلطیاں میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف سے دوران اقتدار ہوئیں وہ ان کے جانشین نہ کریں لیکن یہ کہنے والوں کو یاد نہیں کہ غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں وہ انڈے بچے دیتی اور ادھار مع سود واپس کرتی ہیں۔ اگر اپنے طویل دور اقتدار میں مسلم لیگ مخالفین کو جمہوریت اور شہری آزادیوں کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دیتی‘ انتظامیہ اور پولیس کو قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دینے کا خوگر بناتی اور حق اجتماع و اظہار رائے کی آزادی کا موقع فراہم کرتی تو آج اسے بھی بے طلب یہ سہولت میسر آتی۔ لاہور اور اسلام آباد گزشتہ دس سال کے دوران کئی بار کنٹینروں سے بند ہوئے‘ سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی رہی ان پر وحشیانہ تشدد کیمروں کے سامنے ہوا اور سیاسی مخالفین پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے‘ مسلم لیگ کو ایوان اقتدار سے نکلے صرف ڈیڑھ ماہ ہوا اور رونے دھونے کی نوبت آ گئی ‘کیا کھلا تضاد نہیں۔ لیول پلینگ فیلڈ وہ مانگ رہے ہیں جن کی لغت میں یہ لفظ 31مئی کے بعد درج ہوا ‘ اور آزادی صحافت و جمہوری اقدار کا رونا وہ رو رہے ہیں جن کے دور اقتدار میں ان الفاظ کی خوب مٹی پلید ہوئی۔ رہا میاں نواز شریف کا فوج اور عدلیہ کے خلاف بیانیہ تو اسٹیبلشمنٹ میں شریف خاندان سے ہمدردی رکھنے والے عناصر کو اب پتہ چل گیا ہو گا کہ میاں نواز شریف اپنی ذات اور مفاد کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اخبار نویسوں سے بریفنگ میں کہا تھا کہ مارشل لاء پانچ منٹ میں لگ سکتا ہے‘ البتہ دبائو کا مقابلہ کرنا اور پہل نہ کرنا مشکل کام ہے جو میں کر رہا ہوں۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں وہ نہیں جو ملکی مفاد مجروح ہونے پر بھی چین کی بانسری بجائوں گا‘‘ ملک کو ایجی ٹیشن اور خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کا آغاز ہو چکا‘ ریڈ لائنز کراس ہونے لگیں۔ انتظار کب تک ہو گا؟