اسلم کولسری نے کہا تھاؔ میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیئے بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا اظہار شاہین کا شعر ہے: کھلونوں کی دکانو راستہ دو میرے بچے گزرنا چاہتے ہیں یہ تو شاعروں کا اظہار ہے کہ کتھارسز کرلیا۔ عام آدمی بے چارا تو اسی طرح اظہار کرتا ہے جو اس کی بساط ہے لیکن بعض غریبوں کے اظہار ایسے ہوتے ہیں کہ شعر کی تاثیر سے بڑھ جاتے ہیں۔ میں ایک رکشہ والے کی بات سن رہا تھا تو میری آنکھیں بھیک گئیں۔ کہنے لگا ’’بائو جی کیا کریں پچھلے دور میں میں روزانہ گیارہ بارہ سو روپے گھر لے جاتا تھا۔ اس میں ماشاء اللہ اچھا گزارا ہو جاتا۔ مکان کا کرایہ اور دوسری ضروریات۔ جب سے یہ تبدیلی دور آیا ہے میں نے ایک ہزار روپے کی شکل نہیں دیکھی۔مالک مکان والے کہتے ہیں کہ اسے نکالو یہ اب اپنے حصے کے بل بھی نہیں دیتا۔ میں کیا کروں۔ بل ادا کرنے کی بچت نہیں ہوتی، پھر وہ روہانسہ سا ہو کر کہنے لگا۔ اب کے عید پر میں گھر سے نکل گیا۔ میرے پاس پیسے ہی نہیں تھے کہ بچوں کو خوشیاں دے سکتا۔ ایک سنگھاڑے بیچنے والا اپنی کہانی لے کر بیٹھ گیا کہ سارا دن گھومتا ہوں دو اڑھائی سو روپے بچتے ہیں۔ اب میں ان سے کیسے گزارا کروں۔ بائو جی جب سے خان آیا ہے برباد ہو گئے ہیں۔ یہ ہے خلق کی آواز، آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ اب ذرا خان صاحب کا تازہ بیان پڑھ لیں کہ وہ کسی طرح بلیک میل نہیں ہوں گے۔ جب تک وہ زندہ ہیں این آر او نہیں دیں گے۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ کسی ڈاکو چور کو این آر او نہیں ملنا چاہیے۔ لیکن اگلی بات تو سمجھ میں بھی نہیں آتی کہ فرماتے ہیں سب سے کم مہنگائی ہمارے پہلے سال میں ہوئی۔ یہ لوگ احتجاج نہیں کر رہے بلکہ پی ٹی آئی کی کامیابی سے خوفزدہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی ناکامی کے باعث ہی انہیں یہ جرأت ہوئی کہ وہ یہ جسارت کریں۔ اگر پی ٹی آئی نے عوام کو کچھ ریلیف دیا ہوتا تو معاملہ مختلف ہوتا۔ ریلیف کا تو چھوڑیں یہ لفظ یہاں بے معنی لگتا ہے صرف مہنگائی کو روک لیتے۔ اب تو لوگوں کو جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ اب مارچ کرپاتے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں نیم بیروں نیم دروں سب اس میں بھی شامل ہیں۔ شہروں کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ ٹریفک کا مسئلہ پہلے ہی تھا اور اب آئے روز کوئی نہ کوئی احتجاج ٹریفک نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔ اب تو کنٹینرز سے بھی بعض شاہراہیں بلاک کردی ہیں۔ ڈاکٹرز بھی احتجاج پر ہیں۔ تاجروں نے ہڑتال کردی اور کہا ہے کہ مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو 31 کو ہڑتال کریں گے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں لیڈی ٹیچرز کو احتجاج کرنے پر گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ سارا منظر نامہ کس چیز کی غماضی کرتا ہے: آپ خود اپنی ادائوں پہ ذ را غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی مجھے دکھ ہوتا ہے اس لیے کہ میرے پورے خاندان نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ اس امید پر کہ نیا سورج طلوع ہوگا۔ میرے وطن میں خوشحالی آئے گی۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑائی جائے۔ ہم بھی اپنی عزت نفس برقرار رکھتے ہوئے کامیاب ہو جائیں گے۔ بیروزگاری ختم ہوگی۔ یہ جو اربوں منی لانڈر ہورہے تھے رک جائیں گے۔ منی ڈرین جو بقول خان صاحب کے 1300 ارب ڈالر یا 200 ارب ڈالرتھی نہیں ہوگی۔ میڈیکل اداروں کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ خاص طور پر تعلیمی ادارے تو مثالی بن جائیں گے کہ خان صاحب نے ہمارے نوجوان طلباء کو متاثر کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ پچھلی حکومتیں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ جیسی ترغیبات دے رہی تھی۔ نوجوان عمران خان کا دم بھرتے تھے۔ کہ ایک دلیر اور خودار لیڈر آئے گا اور سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔ پھر ہوا کیا بدل کر تو رکھ دیا مگر وہ مثبت نہ تھا۔ ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا اب تو یوں ہے کہ خان صاحب کچھ کرکے دکھائیں گے تو بچ پائیں گے وگرنہ وہ اپنے مداحیں پہلے ہی کھو بیٹھے ہیں۔ اکثر ہمارے سینئر حسن نثار، ہارون رشید اور ایاز میر جیسے لوگ جوکہ خان صاحب کے عاشق صادق تھے یہ کچھ فرما رہیں تو باقی کا کیا عالم ہوگا۔ چلیے سوشل میڈیا پر کچھ نوجوان جو کہتے ہیں کچھ بھی ہو جائے وہ عمران خان کو نہیں چھوڑیں گے۔ مگر ملک کا صحیح سمت گامزن ہونااز بس ضروری ہے۔ دوسری صورت یہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے میں جب انہیں بھارت کا سب کچھ معلوم ہے اور آپ ان سے نفرت بھی کرتے ہیں تو پھر کرتار پور کی راہ داری آپ کو بہت عزیز ہے۔ ہاں یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ صحت مند اقدام ہے کہ آپ نے ننکانہ میں گرونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ اب آخر میں عتیق انور کی کتاب کاسۂ چشم کا ذرا تذکرہ ہو جائے۔ یہ تقریب گورنر ہائوس میں رکھی گئی تھی جس میں بہت نامور لوگوں نے شرکت کی اور انہوں نے راجہ صاحب کی دل کھول کر تعریف کی۔ عتیق انور راجہ ایک فعال شاعر اور کالم نگار ہیں۔ مجھے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ نظر آتی ہے کہ وہ ہمہ وقت ادب سے جڑے رہتے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی تقریب گوجرانوالہ میں منعقد کرتے ہیں۔ گویا ان کی وجہ سے رونقیں قائم ہیں۔ باقی رہی بات ان کی شاعری کی تو وہ سہل ممتنع میں رہے۔ بہت سلیس اور سادہ۔ بڑی آسانی سے وہ اپنا مافی الضمیر بیان کر جاتے ہیں۔ وہ دوست نواز بھی ہیں کہ گورنر ہائوس میں بھی گوجرانوالہ سے پچاس کے قریب لوگ آئے ہوئے تھے۔ ویسے یہ ایک اچھی بات ہے۔ گورنر محمد سرور یہاں ادبی تقاریب کی اجازت دیتے ہیں اور خود اس کا حصہ بنتے ہیں۔ پہلے عتیق انور راجہ کے دوشعر دیکھ لیں: کاسہ چشم بھرنے والا ہے وہ گلی سے گزرنے والا ہے عمر بھر ساتھ بھی نبھائے گا وہ جو دل میں اترنے والا ہے اچھا ہوا ڈاکٹر صغریٰ صدف نے نظامت کے فرائض نبھائے اور خوب نبھائے۔ چونکہ اظہار خیال کرنے والے زیادہ تھے اس لیے وہ کسی کو بلانے سے پہلے کہتیں کہ فلاں تشریف لائیں گے اور مختصر اظہار خیال کریں گے۔ میں جب آیا تو دیکھا وہاں کوئی انٹرٹین منٹ کا پروگرام بھی ہال سے باہر ہو رہا تھا۔ وہاں معروف ٹی وی سٹار امتیاز مل گیا اور کئی دوسرے بھی کہنے لگے ’’سر آپ کے ساتھ سیلفی ہو جائے۔‘‘ میں نے کہا کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم سب ہنستے ہوئے ہال میں داخل ہوئے۔ گورنر صاحب ذرا دیر سے آئے کہ مصروفیت بہرطور ان کے ساتھ رہتی ہے۔ سٹیج پر بیٹھنے والوں میں ٹی وی اینکر افتخار احمد، اداکار راشد محمود، عاصم بخاری، نشو بیگم، سائیں ظہور اور قمر ریاض تھے۔ اظہار خیال کے لیے ڈاکٹر غافر شہزاد، اعتبار ساجد، ڈاکٹر شاہدہ دلاور کے علاوہ بہت سے دانشور تھے۔ نبیل احمد نے وجدان کی طرف سے یہ پیارا سا پروگرام منعقدہ کیا تھا۔